Sunday, 5 February 2017

ناکارہ ٹرانسپورٹ سے شہر میں آلودگی


بوسیدہ اور ناکارہ ٹرانسپورٹ نے شہر میں آلودگی پھیلا رکھی ہے
(Investigating Report 3) 
سید فہد علی نقوی
2K15/MMC/49 (M.A PASS)
حیدرآباد سندھ کا دوسرا بڑا شہر میں مگر اسکے ساتھ ہمیشہ سے سوتیلوں والا رویّہ رکھا گیا ہے، جہا ں ایک طرف یہ شہر کراچی سے ہر لحاظ سے پیچھے ہے وہیں دوسی طرف اسکا کوئی پرسان حال نہیں،صحیح سڑکیں تو اسکے نصیب میں ہی نہیں ہیں مگر جب سڑکیں بنا دیجاتی ہیں تو زیا دہ سے زیادہ ایک مہینے کے انسر وہ اپنی پرانی حالت میں وآپس آجاتی ہے،جس طرح اس شہر کے ساتھ سینکڑوں مسائل درپیش ہیں وہیں دوسری طرف اسکا ایک بڑا مسئلہ پبلک ٹرانسپورٹ کا ہے، ایک طرف تو یہاں پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے شہریوں کو پریشانی کا سامنا ہے وہیں دوسری طرف جو ٹرانسپورٹ ہے اسکا حال بتانے جیسا نہیں ہے،ایک بس ڈرائیور محمد اسلم سے جب اس بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ اسکی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ پبلک ٹرانسپورٹ کراچی کا رد کیا ہوا مال ہے مطلب جو گاڑی کراچی میں چلانے کے قابل نہیں رہتی وہ ہم حیدرآباد کی سڑکوں پر چلاتے ہیں کیونکہ حیدرآباد کے روٹ لمبے نہیں ہیں اور نہ کراچی کی طرح لمبے لمبے روڈ ہیں اس لیے یہاں ایسی ناکارہ بسیس چلانے میں مسلۂ نہیں ہوتا،جس طرح یہ ناکارہ ٹرانسپورٹ ایک طرف کبھی بھی بڑے حادثے کا ذریع بن سکتا ہے وہیں دوسری طرف اس وجہ سے شہر میں ماحولیاتی آلودگی بھی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے،بھٹائی میڈیکل اسپتال کے ایک ڈاکٹر ، ڈاکٹر جمشید احمد خانزادہ نے بتایا کہ گزشتہ مہینے سے تقریبا ۵۶ افراد اسپتال میں داخل ہو کہ گئے ہیں جن میں سے اکثر دل کے مریض اور دیگر مختلف امراض میں مبتلا ہیں جسکی بڑی وجہ ماحولیاتی آلودگی ہے،گزشتہ کئی مہینوں کے دوران یہ سال کا سب سے بڑا ہندسہ ہے جس میں ایک ہی مہینے کے اندر ۵۶ افراد اسپتال میں داخل ہوئے ہیں جبکہ پہلے یہ تعداد ۲۰ سے ۲۵ کے دوران رہتی تھی اچانک اتنی تیزی سے بڑھتی ہوئی آلودگی کے بارے میں ضلع انتظامیہ کو سنجیدگی سے سوچنا اور حل کرنا چائیے۔
ٹرانسپورٹ انچارج لطیف آباد ۱۲ نمبر خرم علی شیخ نے بتا یا کہ یہ ہماری مجبوری ہے کہ ہمارے پاس وسائل کی کمی ہے اور اتنے وسائل نہیں ہیں کہ ہم اچھی ٹرانسپورٹ سڑکوں پر لاسکیں اور ابھی تو ہم اس قابل بھی نہیں ہیں کہ کم از کم اتنی ٹرانسپورٹ لا سکیں جو حیدرآباد کے شہریوں کے لیے کافی ہو،جو بسیس کراچی سے رد ہو کے آتی ہیں ہم اسے اس شہر میں جگہ دیتے ہیں ، بھلے ہم اتنی ٹرانسپورٹ مہیّا نہیں کر سکتے جتنی اس شہر کو ضرورت ہے مگر پھر بھی ہم کراچی کی گاڑیاں اس لیے خریدتے ہیں کہ کم از کم ٹرانسپورٹ کی کبی کا مسئلہ کسی حد تک ختم ہو سکے اوراس میں ہم کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں کیونکہ حال ہی میں ہم نے کراچی سے ۳ سیکنڈ ہینڈ بسیس خریدی ہیں جو لطیف آباد کی سڑکوں پر چلیں گی جسکی وجہ لطیف آباد کے عام شہریوں کو کسی حد تک ریلیف ملے گا اور اب انہیں بسوں کی چھت کے بجائے اندر بیٹھ کے اپنی منزل جانے میں سہولت ہوگی۔جب ان سے ماحولیاتی آلودگی کے بارے میں پوچھا گیا جو ان بسوں کی وجہ آلودگی بڑھ رہی ہے تو انہوں نے بتایا کہ ایک طف تو حیدرآباد شہر کے روڈ ایسے جو جگہ جگہ سے ٹوٹے پھوٹے ہیں،جگہ جگہ سے کیا یہ تو پورے ہی روڈ ٹوٹے ہوئے ہیں ،جب ان ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر بسیس چلیں گی تو ظاہر سی بات ہے کہ دھول مٹی تو زیادہ اڑے گی،جو سانس کے ذریعے انسانی جسم میں جائی گی تو ظاہر سی بات ہے بیماریاں تو بڑھینگی،اب سڑکیں بنانا تو محکمہ ٹرانسپورٹ کا کام نہیں ہے اب اس ضمن میں ہم کچھ بھی کرنے سے قاصر ہیں۔
یہ نمام مسائل اپنی جگہ مگر جہاں شہری اس وجہ سے پریشان ہیں انکی پریشانی اس وقت اور بڑھ جاتی ہے جب ڈرائیور اور کنڈیکٹر ان کے شہریوں کی پرواکیے بغیر بسوں کی ریس لگوانا شروع کردیتے ہیں اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ انکی ذرا سی بھی غلطی کسی بھی بڑے حادثے کا سبب بن سکتی ہے اور اکی غلطی کی وجہ سے سینکڑوں جانوں کا نقصان ہوسکتا ہے اور سونے پر سہاگا کہ وہ ہر وقت اتنی جلدی میں ہوتے ہیں کہ مسافروں کے بس سے اترنے کا انتظار بھی نہیں کرتے اور مسافر کا ایک پاؤں بس میں ہوتا ہے اور ایک سڑک پر اور یہ ڈرائیور بس اسٹارٹ کردیتے ہیں جسکی وجہ سے بیشتر اوقات کئی مسافر گر کر زخمی بھی ہو جاتے ہیں اور پھر اکثر اوقات مسافروں کی بس ڈرائیوروں اور کنڈیکٹروں سے لڑائیاں بھی ہو جاتی ہے۔یہ سب باتیں اپنی جگہ مگر حیدرآباد انتظامیہ کو ٹرانسپورٹ سے مسئلے کو حل کرنے کے لیے سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کیونکہ اس وجہ سے ماحولیاتی آلودگی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے جو کہ حیدرآباد کے شہریوں کے لیے کسی بڑے مسئلے سے کم نہیں۔

سید فہد علی نقوی
2K15/MMC/49 (M.A PASS)

No comments:

Post a Comment