اویس احمد صدیقی 2k13/MC/23 Improver/Failure
فاسٹ فوڈ کے فوائد /نقصانات (آرٹیکل) وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جہاں زندگی کے ہر معاملے میں تیزی آئی ہے وہیں کھانے پینے میں فاسٹ فوڈ جیسے لفظ کا اضافہ بھی ہوا ہے۔ آج ہر ج گہ مغربی طرز کے برگرز، سینڈوچز وغیرہ منظر عام پر ہیں۲ بن کباب برگر کہلانے لگا جیسے ایک معصوم انسان کو فیشن کی ہوا لگ گئی ہو۔ فاسٹ فوڈز کی تاریخ بہت پرانی ہے اس کا آغاز 18ویں صدی میں امریکہ میں ہوا۔ ابتداء میں سستے اور غیر معیاری قسم کے برگر صرف میلوں اور سرکس وغیرہ میں اسٹالز پر دستیاب ہوتے تھے۔ بعد ازاں 19ویں صدی میں "فاسٹ کاسل" نامی پہلی فوڈ چین معرض وجد میں ؤی جو اعلی معیار کے برگر اپنے گریکوں کو رسٹورانٹ میں فراہم کرتے تھے۔ آج کل قیمہ پراٹھہ کی شکل کا پیزا نوجوانوں کی رغوب غزا ہے۔ اور وہ ریسٹورنٹ جہاں فاسٹ فوڈ دستیاب ہیں۔ اکثر و بیشتر نوجوان سے بھرے رہتے ہیں۔ فاسٹ فوڈ کی مقبولیت کی ایک اور وجہ اسکی با آسانی دستیابی ہے۔ جسکی ایک مثالی یہ ہے کہ ایک لوکل کال پر فاسٹ فوڈ 30منٹ کے اندر گھر کے دروازے پر ہوتا ہے۔ ہائے فاسٹ فوڈ تو 30منٹ میں گھر تک پہنچ جاتا ہے۔ مگر جب کوئی نازک حالت میں بستر مرگ پر ہو ایمبولنس اتنی جلدی نہیں پہنچتی۔ پرانے زمانے میں لوگ اصلی گھی کی روٹی، سرسوں کا ساگ اور اسکے ساتھ لسی کا بڑا گلاس جس کے اندر مکھن کچھ اس طرح تیرتا تھا جیسے آجکل جائے میں ٹی بیگ تیرتا ہے۔ ویسا کھانا پسند کرتے تھے۔ ایسے کھانے کو دیکھ کر آج کل کی نوجوان نسل یہ کہنے لگتی ہے کہ یہ کسی انسان کا کھانا نہیں بلکہ کسی جن کی غذا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ بریانی، قورمہ اور شیر مال وغیرہ کی جگہ پیزا فرائڈ چکن اور دیگر فاسٹ فوڈ لے لی ہے۔ کیونکہ موٹاپے سے بے حال لوگ یہ روغنی کھانے استعمال کرنے سے پرہیز کرتے ہیں اور دوسری طرف انہیں صرف پیزا کھانا کی پیش کش کی جائے تو منع کرنے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ حالانکہ پیزا کے صرف ایک جز پنیر جو کہ پیزا کی تیاری میں بے تہاشا استعمال ہوتا ہے جو روغنی کھانوں کے مقابلے میں زیادہ کیلوریز رکھتی ہے۔ فاسٹ فوڈ ایسے کھانے کو کہتے ہیں۔ جو چلتے پھرتے کھا سکیں۔ آجکل کی نوجوان نسل اس سے بہت متاثر نظر آتی ہے مگر وہ یہ نہیں جانتی کہ فاسٹ فوڈ کا استعمال صحت کے لئے نہایت معزز ہے۔ طبی ماہرین کا فاسٹ فوڈ کے زیادہ استعمال سے پرہیز کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ کیونکہ اس میں کیلوریز کا تناسب حد سے زیادہ ہوتا ہے۔ فاسٹ فوڈ کھانے سے وزن میں تیزی سے اضافہ ہوتا ہے۔ ان کھانوں میں استعمال کئے گئے تیز مصالح اور گوشت کو جلد گلانے کے لئے استعمال مختلف کیمیائی اجزاء انسانی معدے کو تباہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہے ں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ فاسٹ فوڈ کے بجائے سبزی اور دودھ کا استعمال زیادہ سے زیادہ کریں اس سے جسم توانا اور دماغ چست رہتا ہے۔ مزید یہ کہ سبزیوں سے کولیسٹرول میں رہتا ہے۔ اور دل کی دیگر امراض سے بچا جاسکتا ہے۔
فاسٹ فوڈ کے فوائد /نقصانات (آرٹیکل) وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جہاں زندگی کے ہر معاملے میں تیزی آئی ہے وہیں کھانے پینے میں فاسٹ فوڈ جیسے لفظ کا اضافہ بھی ہوا ہے۔ آج ہر ج گہ مغربی طرز کے برگرز، سینڈوچز وغیرہ منظر عام پر ہیں۲ بن کباب برگر کہلانے لگا جیسے ایک معصوم انسان کو فیشن کی ہوا لگ گئی ہو۔ فاسٹ فوڈز کی تاریخ بہت پرانی ہے اس کا آغاز 18ویں صدی میں امریکہ میں ہوا۔ ابتداء میں سستے اور غیر معیاری قسم کے برگر صرف میلوں اور سرکس وغیرہ میں اسٹالز پر دستیاب ہوتے تھے۔ بعد ازاں 19ویں صدی میں "فاسٹ کاسل" نامی پہلی فوڈ چین معرض وجد میں ؤی جو اعلی معیار کے برگر اپنے گریکوں کو رسٹورانٹ میں فراہم کرتے تھے۔ آج کل قیمہ پراٹھہ کی شکل کا پیزا نوجوانوں کی رغوب غزا ہے۔ اور وہ ریسٹورنٹ جہاں فاسٹ فوڈ دستیاب ہیں۔ اکثر و بیشتر نوجوان سے بھرے رہتے ہیں۔ فاسٹ فوڈ کی مقبولیت کی ایک اور وجہ اسکی با آسانی دستیابی ہے۔ جسکی ایک مثالی یہ ہے کہ ایک لوکل کال پر فاسٹ فوڈ 30منٹ کے اندر گھر کے دروازے پر ہوتا ہے۔ ہائے فاسٹ فوڈ تو 30منٹ میں گھر تک پہنچ جاتا ہے۔ مگر جب کوئی نازک حالت میں بستر مرگ پر ہو ایمبولنس اتنی جلدی نہیں پہنچتی۔ پرانے زمانے میں لوگ اصلی گھی کی روٹی، سرسوں کا ساگ اور اسکے ساتھ لسی کا بڑا گلاس جس کے اندر مکھن کچھ اس طرح تیرتا تھا جیسے آجکل جائے میں ٹی بیگ تیرتا ہے۔ ویسا کھانا پسند کرتے تھے۔ ایسے کھانے کو دیکھ کر آج کل کی نوجوان نسل یہ کہنے لگتی ہے کہ یہ کسی انسان کا کھانا نہیں بلکہ کسی جن کی غذا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ بریانی، قورمہ اور شیر مال وغیرہ کی جگہ پیزا فرائڈ چکن اور دیگر فاسٹ فوڈ لے لی ہے۔ کیونکہ موٹاپے سے بے حال لوگ یہ روغنی کھانے استعمال کرنے سے پرہیز کرتے ہیں اور دوسری طرف انہیں صرف پیزا کھانا کی پیش کش کی جائے تو منع کرنے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ حالانکہ پیزا کے صرف ایک جز پنیر جو کہ پیزا کی تیاری میں بے تہاشا استعمال ہوتا ہے جو روغنی کھانوں کے مقابلے میں زیادہ کیلوریز رکھتی ہے۔ فاسٹ فوڈ ایسے کھانے کو کہتے ہیں۔ جو چلتے پھرتے کھا سکیں۔ آجکل کی نوجوان نسل اس سے بہت متاثر نظر آتی ہے مگر وہ یہ نہیں جانتی کہ فاسٹ فوڈ کا استعمال صحت کے لئے نہایت معزز ہے۔ طبی ماہرین کا فاسٹ فوڈ کے زیادہ استعمال سے پرہیز کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ کیونکہ اس میں کیلوریز کا تناسب حد سے زیادہ ہوتا ہے۔ فاسٹ فوڈ کھانے سے وزن میں تیزی سے اضافہ ہوتا ہے۔ ان کھانوں میں استعمال کئے گئے تیز مصالح اور گوشت کو جلد گلانے کے لئے استعمال مختلف کیمیائی اجزاء انسانی معدے کو تباہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہے ں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ فاسٹ فوڈ کے بجائے سبزی اور دودھ کا استعمال زیادہ سے زیادہ کریں اس سے جسم توانا اور دماغ چست رہتا ہے۔ مزید یہ کہ سبزیوں سے کولیسٹرول میں رہتا ہے۔ اور دل کی دیگر امراض سے بچا جاسکتا ہے۔
-------------------------------------------
اویس احمد صدیقی 2k13/MC/23 Improver/Failure
ظفر اقبال پروفیسر ڈاکٹر (پروفائل)پروفیسر ڈاکٹر ظفر اقبال ۱۸ جولائی ۹۵۲اء کو سندھ کے مشہور تاریخی شہر لاڑکانہ میں پیدا ہوئے۔ ظفر اقبال کی ابتدائی تعلیم لاڑکانہ میں ہوئی اور یہیں پر انہوں نے مختلف علماء سے مدرسے میں داخلے کے بغیر نجی طور پر درس نظامی کے بیشتر نصاب کی تکمیل کی۔ علاوہ ازیں سندھ کے مشہور ماہر تعلیم استاد عباﷲ اثر سے فارسی کے مروجہ نصاب ادب کی تکمیل کی اور استاد حبیب اﷲ سے عربی کی تعلیم حاصل کی۔ ۹۶۷اء میں میونسپل اسکول لاڑکانہ سے میٹرک پاس کیا۔ ا۹۷اء میں گورنمنٹ ڈگری کالج لاڑکانہ سے انٹر میڈیٹ اور ۹۷۳اء میں سندھ یونیورسٹی سے بی ایس سی کی سند حاصل کی۔
اس زمانے میں سندھ یونیورسٹی شعبہ اردو میں ڈاکٹر سید سخی احمد ہاشمی، ڈاکٹر نعیم ندوی، ڈاکٹر نجم الاسلام اور ان سب کے سر سبد اور مرشد کا مل ڈاکٹر غلام مصطفی خاں رونق افروز تھے۔ ان اساتذہ سے ظفر اقبال نے خوب خوب اسفادہ کیا۔ ظفر اقبال کہتے ہیں کہ ان کی زندگی پر سب سے زیادہ اثر ڈاکٹر نجم الاسلام اور ڈاکٹر غلام مصطفی خاں صاحب کا ہے۔ ۹۷۵اء میں ظفر اقبال نے ایم اے بدرجہ اول پاس کیا اور اس کے ساتھ ہی ڈاکٹر غلام مصطفی خان کے مشورے سے ڈاکٹر نجم الاسلام کی زیر نگرانی پی ایچ ڈی کا تحقیق کا کام شروع کردیا۔
۹۷۹اء میں ڈاکٹر ظفر اقبال کا تقرر وفاقی اردو سائنس کالج میں ہوگیا۔ اسی زمانے میں ان کاپی ایچ ڈی کا کام بھی تقریبا مکمل ہوچکا تھا صرف نظر ثانی وغیرہ کا کام باقی تھا اور وہ اس تقرری کے باوجود جوائن کرنے سے قدرتے گریزاں تھے۔ لیکن ڈاکٹر مضطفی خان کے حکم پر ۹۸۴اء میں ان کا تقرر شعبہ اردو، جامعہ کراچی میں بحیثیت لیکچرا ہوگیا۔ ا س وقت شعبہ اردو پاکستان کی تمام جامعات میں نمایاں تھا۔ ڈاکٹر فرمیان فتح پوری، ڈاکٹر اسلام فرخی، ڈاکٹر ابوالخیر ک شفی، جمیل اختر خان، سحر انصاری، ڈاکٹر حنیف فوق وغیرہ نمایاں ترین اساتذہ میں شامل تھے اور ان سب کے میر کارواں ڈاکٹر ابواللیث صدیقی پروفیسر ایمر ٹیس تھے۔
۹۸۹اء پروفیسر ڈاکٹر ظفر اقبال کو ٹو کیو یونیورسٹی جاپان سے مہمان پروفیسر کی پیش کش ہوئی جسے قبول کرنے کے بعد انہوں نے شعب�ۂ اردو، ٹوکیو یونیورسٹی میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ جاپان میں قیام کے دوران انہوں نے دائتو بنکا یونیورسٹی میں تقریبا چارسو جزوقتی استاد کی حیثیت سے کام کیا اور اس کے ساتھ ساتھ ریڈیو جاپان میں نشریات اور تراجم کا کام بھی سر انجام دیا۔ ۹۹۳حء میں ٹوکیو یونیورسٹی سے واپس آکر شعبۂ اردو جامعہ کراچی میں دوبارہ رجوع بکار ہوگئے۔ ۹۹۷اء میں ایسوسی ایٹ پروفیسر اور ۲۰۰۱ء میں پروفیسر اور صدر شعبۂ اردو ہوئے ۔ اس کے بعد ۲۰۰۳ء میں وفاقی اردو یونیورسٹی سے بحیثیت رئیس کلیہ فنون، کامرس اور قانون سے وابستہ ہوگئے۔ آج کل ظفر اقبال بطور پروفیسر شعبہ اردو خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان کی نگرانی میں تقریباً اب تک تقریباً چالیس مقالات لکھے جا چکے ہیں۔ چھ افراد نے ان کی نگرا میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی ہے جب کہ ۲۶ افراد ان کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ ڈاکٹر ظفر اقبال کی مطبوعہ کتابوں کے نام کچھ اس طرح ہے :
ا۔ فہرست مخطوطات اردو۔ قومی عجائب گھر کراچی۔ ادارہ کتابیات پاکستان کراچی ا۹۹اء
فہرست مخطوطات اردو (اشاعت ثانی ) خدا بخش اورنٹیل پبلک لائبریری ، پٹنہ بھارت ۹۹۵اء
۲ دیوان نین سکھ (تدوین) انجمن ترقی اردو (ہند) نئی دہلی ۹۹۲اء
۳ تذکرہ سفینہ بینجر (تدوین) ادارہ ترویج علوم اسلامی، کراچی ۹۹۹اء
۴ ناسخ کا غیر مطبوعہ کلام (تدوین) شعبہ اردو جامعہ کراچی، کراچی ۲۰۰۰ء۔
ظفر اقبال پروفیسر ڈاکٹر (پروفائل)پروفیسر ڈاکٹر ظفر اقبال ۱۸ جولائی ۹۵۲اء کو سندھ کے مشہور تاریخی شہر لاڑکانہ میں پیدا ہوئے۔ ظفر اقبال کی ابتدائی تعلیم لاڑکانہ میں ہوئی اور یہیں پر انہوں نے مختلف علماء سے مدرسے میں داخلے کے بغیر نجی طور پر درس نظامی کے بیشتر نصاب کی تکمیل کی۔ علاوہ ازیں سندھ کے مشہور ماہر تعلیم استاد عباﷲ اثر سے فارسی کے مروجہ نصاب ادب کی تکمیل کی اور استاد حبیب اﷲ سے عربی کی تعلیم حاصل کی۔ ۹۶۷اء میں میونسپل اسکول لاڑکانہ سے میٹرک پاس کیا۔ ا۹۷اء میں گورنمنٹ ڈگری کالج لاڑکانہ سے انٹر میڈیٹ اور ۹۷۳اء میں سندھ یونیورسٹی سے بی ایس سی کی سند حاصل کی۔
اس زمانے میں سندھ یونیورسٹی شعبہ اردو میں ڈاکٹر سید سخی احمد ہاشمی، ڈاکٹر نعیم ندوی، ڈاکٹر نجم الاسلام اور ان سب کے سر سبد اور مرشد کا مل ڈاکٹر غلام مصطفی خاں رونق افروز تھے۔ ان اساتذہ سے ظفر اقبال نے خوب خوب اسفادہ کیا۔ ظفر اقبال کہتے ہیں کہ ان کی زندگی پر سب سے زیادہ اثر ڈاکٹر نجم الاسلام اور ڈاکٹر غلام مصطفی خاں صاحب کا ہے۔ ۹۷۵اء میں ظفر اقبال نے ایم اے بدرجہ اول پاس کیا اور اس کے ساتھ ہی ڈاکٹر غلام مصطفی خان کے مشورے سے ڈاکٹر نجم الاسلام کی زیر نگرانی پی ایچ ڈی کا تحقیق کا کام شروع کردیا۔
۹۷۹اء میں ڈاکٹر ظفر اقبال کا تقرر وفاقی اردو سائنس کالج میں ہوگیا۔ اسی زمانے میں ان کاپی ایچ ڈی کا کام بھی تقریبا مکمل ہوچکا تھا صرف نظر ثانی وغیرہ کا کام باقی تھا اور وہ اس تقرری کے باوجود جوائن کرنے سے قدرتے گریزاں تھے۔ لیکن ڈاکٹر مضطفی خان کے حکم پر ۹۸۴اء میں ان کا تقرر شعبہ اردو، جامعہ کراچی میں بحیثیت لیکچرا ہوگیا۔ ا س وقت شعبہ اردو پاکستان کی تمام جامعات میں نمایاں تھا۔ ڈاکٹر فرمیان فتح پوری، ڈاکٹر اسلام فرخی، ڈاکٹر ابوالخیر ک شفی، جمیل اختر خان، سحر انصاری، ڈاکٹر حنیف فوق وغیرہ نمایاں ترین اساتذہ میں شامل تھے اور ان سب کے میر کارواں ڈاکٹر ابواللیث صدیقی پروفیسر ایمر ٹیس تھے۔
۹۸۹اء پروفیسر ڈاکٹر ظفر اقبال کو ٹو کیو یونیورسٹی جاپان سے مہمان پروفیسر کی پیش کش ہوئی جسے قبول کرنے کے بعد انہوں نے شعب�ۂ اردو، ٹوکیو یونیورسٹی میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ جاپان میں قیام کے دوران انہوں نے دائتو بنکا یونیورسٹی میں تقریبا چارسو جزوقتی استاد کی حیثیت سے کام کیا اور اس کے ساتھ ساتھ ریڈیو جاپان میں نشریات اور تراجم کا کام بھی سر انجام دیا۔ ۹۹۳حء میں ٹوکیو یونیورسٹی سے واپس آکر شعبۂ اردو جامعہ کراچی میں دوبارہ رجوع بکار ہوگئے۔ ۹۹۷اء میں ایسوسی ایٹ پروفیسر اور ۲۰۰۱ء میں پروفیسر اور صدر شعبۂ اردو ہوئے ۔ اس کے بعد ۲۰۰۳ء میں وفاقی اردو یونیورسٹی سے بحیثیت رئیس کلیہ فنون، کامرس اور قانون سے وابستہ ہوگئے۔ آج کل ظفر اقبال بطور پروفیسر شعبہ اردو خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان کی نگرانی میں تقریباً اب تک تقریباً چالیس مقالات لکھے جا چکے ہیں۔ چھ افراد نے ان کی نگرا میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی ہے جب کہ ۲۶ افراد ان کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ ڈاکٹر ظفر اقبال کی مطبوعہ کتابوں کے نام کچھ اس طرح ہے :
ا۔ فہرست مخطوطات اردو۔ قومی عجائب گھر کراچی۔ ادارہ کتابیات پاکستان کراچی ا۹۹اء
فہرست مخطوطات اردو (اشاعت ثانی ) خدا بخش اورنٹیل پبلک لائبریری ، پٹنہ بھارت ۹۹۵اء
۲ دیوان نین سکھ (تدوین) انجمن ترقی اردو (ہند) نئی دہلی ۹۹۲اء
۳ تذکرہ سفینہ بینجر (تدوین) ادارہ ترویج علوم اسلامی، کراچی ۹۹۹اء
۴ ناسخ کا غیر مطبوعہ کلام (تدوین) شعبہ اردو جامعہ کراچی، کراچی ۲۰۰۰ء۔
------------------------------------
اویس احمد صدیقی 2k13/MC/23 Improver/Failure
ڈاکٹر تنظیم الفردوس ۔۔صدر شعبہ اردو کراچی (انٹرویو)
ڈاکٹر تنظیم الردوس ایک محقق اور ماہر تعلیم ہونے کے ساتھ ساتھ اردو کی ایک خوبصورت اور صاحب طرز شاعرہ بھی ہے۔ آپ نے بہت سی کتابیں بھی تصنیف کی ہیں۔ آپ متعدد یونیورسٹی کی "بورڈ آف اسٹڈیز کی رکن ہے۔ ادارہ یادگار غالب ، پاکستان سوسائٹی آف کرمنالوجی پاکستان شوشا لوجی ایسوسی ایشن کی ممبر بھی ہے۔
س 1 ڈاکٹر صاحبہ اپنی ابدائی زندگی اور ادب سے وابستگی کے بارے میں کچھ بتائیں؟
جواب میرے والد انڈیا سے ہجرت کر کے چٹا گانگ آئے تھے۔ اور ملازمت کیسلسلے میں چٹاگانگ میں رہائش پذیر تھے اور وہی میری پیدائش ہوئی یہ وہ زمانہ ہے۔ جب بنگلادیش (سابقہ پاکستان) میں ہنگامے چھوٹے ہوئے تھے اور میرے بچپن کے دو تین برس اس زمانے کی ہولناک صورتحال دیکھتے ہوئے گزرے اور میرے بچپن کے دور میں حاصل کی اور چھٹی ہرت کر کے کراچی آگیا۔ ابتدائی تعلیم تو گھر میں حاصل کی اور چھٹی جماعت میں اسکول میں داخل کراگیا اور پھر تعلیم کا سلسلہ چلتا رہا اور کراچی یونیورسٹی سے ماسٹر کیا۔ طالب علمی کے دور سے ہی کراچی یونیورسٹی سے ذاتی وابستگی رہی کہ اردو زبان اور ادب کے کیسے زبردست اکابرین اس ادارے میں تدریس سے وابستہ رہے ہیں تو خواہش یہ رہی کہ کاش کبھی اس ادارے سے منسلک ہونے کا موقع ملے۔ کالج میں تین سال پڑھانے کے بعد اﷲ تعالی نے مجھے موقع دیا۔ اور 1995 میں مجھے جامعہ کراچی میں بطور لیکچرار ملازمت مل گئی۔ اس دوران 2004 میں پی ایچ ڈی مکمل کرلیں۔
س 2 اپنی شاعری کے بارے میں کچھ بتائے کس طرح ابتداء ہوئی؟
جواب شاعری کا سلسلہ بڑا عجیب و غریب رہا میری طبیعت مزاج میں حساسیت کچھ زیادہ تھی۔ شاعر پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ گھر میں علمی و شاعری ذوق تو سب کو ہی تھا۔ میرے والد سید محمد توحید با قائدہ شعر کہتے تھے۔ جب تک مشرقی پاکستان میں رہے تو وہاں اپنی ادبی اظہار کے لئے نشتوں وغیرہ میں حصہ لیتے تھے لیکن کراچی اگر معاشی الجھنوں نے انہیں باقاعدہ شہر کہنے کا موقع نہیں دیا۔ شاعر کے سلسلے میں میرا خیال تھا کہ تقریباً ہر خیال اور موضوع پر لوگ اتنا اچھا کہہ چکے ہیں تو اب میں کون سی نئی بات کہوں گی۔ میرے والد اس سلسلیمیں میری حوصہل افزائی کرتے اور کہتے دہرائی ہو بات کہوں اسی میں سے نئی بات نکل آئے گی۔ کراچی یونیورسٹی میں ایم۔ اے کے دوران نشستیں وغیرہ ہوتیں اور دیگر ادبی پروگرام میں حصہ لینا شروع کیا۔ تو اس زمانے میں میں نے تھوڑی بہت شاعری کرنا شروع کیں۔ ابتداء میں کچھ ن ظمیں کچھ غزلیں کہیں۔ میرے استاد معروف دانشور جناب شمیم احمد صاب سے میں نے اپنی شاعری کا ذکر کیا تو انہوں نے میری بہت حوصلہ افزائی کی۔
س 3 مقبول شاعری اور حقیقی شاعری کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہیں؟
جواب حقیقی شاعری مقبول بھی ہوسکتی ہے میرے خیال میں بعض موضوعات ایسے ہوتے ہیں اس وقت کے معاشرے کے ئے تازہ اور زندہ ہوتے ہیں اور اگر کسی کی تحقیقی قوت کے ساتھ ان موضوعات کی آمیزش ہوجائے تو فوری طور پر پاپولر ہوجاتے ہیں لیکن حقیقی شاعری کے لئے یہ ضروری نہیں کہ وہ مقبول بھی ہو لیکن حقیقی شاعری مقبول بھی ہوسکتی ہے۔
س4 اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے کہ تحقیق کار اپنے عہد کا ترجمان ہوتا ہے۔
ج تحقیق کا دو سطحوں پر اپنے دور کا ترجمان ہوتا ہے۔ ایک عہد یا زمانہ وہ ہوتا ہے جو تحقیق کار کی اپنی ذات کی انفرادیت ہوتی ہے اور ایک اجتماعی صورتحال ہے۔ اگر کہیں کسی تحقیق کار کے ہاں کسی اجتماعی واردات، مسائل یا کیفیات کی عکس ریزی ہوتی ہے۔ اور وہ جو اپنی ذات کی بات کررہا ہے وہ بھی اس زمانے کی ہے۔ بطور فرد جو کچھ اس پر بہت رہی ہے وہ کہی نہ کہی زمانے ہی سے جڑی ہوتی ہے تو تحقیق کار ہر حال میں اپنے زمانے کا ترجمان ہوتا ہے۔
س 5 آپ کو شاعری کی کونسی صنف پسند ہے؟
ج اگر آپ ذاتی پسند کی بات کریں گے تو مجھے پڑھنے اور لطف لینے میں غزل زیادہ پسند آتی ہے اور روایتی غزل، روایت سے جہاں جہاں اطراف بھی کرتی ہے تو مجھے وہ اغراف بھی پسند ہے لیکن غزل کی توانائی کے ساتھ مجھے آج کے جدید سے جدید تر شعراء کی غزل بھی اچھی لگتی ہے۔
س6 حال ہی میں آپ کا مجموعہ " موسم بدلنا چاہئے " شائع ہوا ہے جسے بہت پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ اگلا مجموعہ لانے کا کیا ارادہ ہے۔
ج جی ہاں، اس مجموعے میں بھی بہت سی چیزیں شائع نہیں ہوئی ہے۔ میں تدریسی اور گھریلو ذمہ داریوں میں بھی مصروف ہوں۔ چونکہ تدریس کے ساتھ ساتھ میں تحقیق سے بھی وابستہ ہوں۔ تو یہ فل ٹائم جاب ہے ۔ اب تخلیق اور تحقیق ایک دوسرے سے بہت دور کی چیزیں سمجھی جاتی ہیں۔ میں کسی نہ کسی حد تک ان دونوں کو ایک دوسرے سے قریب کرنے کی کوشش کرتی ہوں لیکن یہ حقیقت ہے کہ تخلیق بہت وقت لیتی ہے اور پوری توجہ چاہتی ہے۔ اسی لئے میری شعری تخلیقات کا سفر بہت سست رفتار ہے۔
س 7 آخر میں طلبہ کے لئے کوئی خاص پیغام دینا چاہیں گی۔
ج طلبہ کے لئے میرا پیغام بہت سادہ ہے کہ آپ خود کے ساتھ انصاف کرنے اگر آپ کے والدین کو پڑھا رہے ہیں تو خود کو کامیاب انسان بنا کر ان کے سامنے پیش کرے۔
ڈاکٹر تنظیم الفردوس ۔۔صدر شعبہ اردو کراچی (انٹرویو)
ڈاکٹر تنظیم الردوس ایک محقق اور ماہر تعلیم ہونے کے ساتھ ساتھ اردو کی ایک خوبصورت اور صاحب طرز شاعرہ بھی ہے۔ آپ نے بہت سی کتابیں بھی تصنیف کی ہیں۔ آپ متعدد یونیورسٹی کی "بورڈ آف اسٹڈیز کی رکن ہے۔ ادارہ یادگار غالب ، پاکستان سوسائٹی آف کرمنالوجی پاکستان شوشا لوجی ایسوسی ایشن کی ممبر بھی ہے۔
س 1 ڈاکٹر صاحبہ اپنی ابدائی زندگی اور ادب سے وابستگی کے بارے میں کچھ بتائیں؟
جواب میرے والد انڈیا سے ہجرت کر کے چٹا گانگ آئے تھے۔ اور ملازمت کیسلسلے میں چٹاگانگ میں رہائش پذیر تھے اور وہی میری پیدائش ہوئی یہ وہ زمانہ ہے۔ جب بنگلادیش (سابقہ پاکستان) میں ہنگامے چھوٹے ہوئے تھے اور میرے بچپن کے دو تین برس اس زمانے کی ہولناک صورتحال دیکھتے ہوئے گزرے اور میرے بچپن کے دور میں حاصل کی اور چھٹی ہرت کر کے کراچی آگیا۔ ابتدائی تعلیم تو گھر میں حاصل کی اور چھٹی جماعت میں اسکول میں داخل کراگیا اور پھر تعلیم کا سلسلہ چلتا رہا اور کراچی یونیورسٹی سے ماسٹر کیا۔ طالب علمی کے دور سے ہی کراچی یونیورسٹی سے ذاتی وابستگی رہی کہ اردو زبان اور ادب کے کیسے زبردست اکابرین اس ادارے میں تدریس سے وابستہ رہے ہیں تو خواہش یہ رہی کہ کاش کبھی اس ادارے سے منسلک ہونے کا موقع ملے۔ کالج میں تین سال پڑھانے کے بعد اﷲ تعالی نے مجھے موقع دیا۔ اور 1995 میں مجھے جامعہ کراچی میں بطور لیکچرار ملازمت مل گئی۔ اس دوران 2004 میں پی ایچ ڈی مکمل کرلیں۔
س 2 اپنی شاعری کے بارے میں کچھ بتائے کس طرح ابتداء ہوئی؟
جواب شاعری کا سلسلہ بڑا عجیب و غریب رہا میری طبیعت مزاج میں حساسیت کچھ زیادہ تھی۔ شاعر پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ گھر میں علمی و شاعری ذوق تو سب کو ہی تھا۔ میرے والد سید محمد توحید با قائدہ شعر کہتے تھے۔ جب تک مشرقی پاکستان میں رہے تو وہاں اپنی ادبی اظہار کے لئے نشتوں وغیرہ میں حصہ لیتے تھے لیکن کراچی اگر معاشی الجھنوں نے انہیں باقاعدہ شہر کہنے کا موقع نہیں دیا۔ شاعر کے سلسلے میں میرا خیال تھا کہ تقریباً ہر خیال اور موضوع پر لوگ اتنا اچھا کہہ چکے ہیں تو اب میں کون سی نئی بات کہوں گی۔ میرے والد اس سلسلیمیں میری حوصہل افزائی کرتے اور کہتے دہرائی ہو بات کہوں اسی میں سے نئی بات نکل آئے گی۔ کراچی یونیورسٹی میں ایم۔ اے کے دوران نشستیں وغیرہ ہوتیں اور دیگر ادبی پروگرام میں حصہ لینا شروع کیا۔ تو اس زمانے میں میں نے تھوڑی بہت شاعری کرنا شروع کیں۔ ابتداء میں کچھ ن ظمیں کچھ غزلیں کہیں۔ میرے استاد معروف دانشور جناب شمیم احمد صاب سے میں نے اپنی شاعری کا ذکر کیا تو انہوں نے میری بہت حوصلہ افزائی کی۔
س 3 مقبول شاعری اور حقیقی شاعری کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہیں؟
جواب حقیقی شاعری مقبول بھی ہوسکتی ہے میرے خیال میں بعض موضوعات ایسے ہوتے ہیں اس وقت کے معاشرے کے ئے تازہ اور زندہ ہوتے ہیں اور اگر کسی کی تحقیقی قوت کے ساتھ ان موضوعات کی آمیزش ہوجائے تو فوری طور پر پاپولر ہوجاتے ہیں لیکن حقیقی شاعری کے لئے یہ ضروری نہیں کہ وہ مقبول بھی ہو لیکن حقیقی شاعری مقبول بھی ہوسکتی ہے۔
س4 اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے کہ تحقیق کار اپنے عہد کا ترجمان ہوتا ہے۔
ج تحقیق کا دو سطحوں پر اپنے دور کا ترجمان ہوتا ہے۔ ایک عہد یا زمانہ وہ ہوتا ہے جو تحقیق کار کی اپنی ذات کی انفرادیت ہوتی ہے اور ایک اجتماعی صورتحال ہے۔ اگر کہیں کسی تحقیق کار کے ہاں کسی اجتماعی واردات، مسائل یا کیفیات کی عکس ریزی ہوتی ہے۔ اور وہ جو اپنی ذات کی بات کررہا ہے وہ بھی اس زمانے کی ہے۔ بطور فرد جو کچھ اس پر بہت رہی ہے وہ کہی نہ کہی زمانے ہی سے جڑی ہوتی ہے تو تحقیق کار ہر حال میں اپنے زمانے کا ترجمان ہوتا ہے۔
س 5 آپ کو شاعری کی کونسی صنف پسند ہے؟
ج اگر آپ ذاتی پسند کی بات کریں گے تو مجھے پڑھنے اور لطف لینے میں غزل زیادہ پسند آتی ہے اور روایتی غزل، روایت سے جہاں جہاں اطراف بھی کرتی ہے تو مجھے وہ اغراف بھی پسند ہے لیکن غزل کی توانائی کے ساتھ مجھے آج کے جدید سے جدید تر شعراء کی غزل بھی اچھی لگتی ہے۔
س6 حال ہی میں آپ کا مجموعہ " موسم بدلنا چاہئے " شائع ہوا ہے جسے بہت پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ اگلا مجموعہ لانے کا کیا ارادہ ہے۔
ج جی ہاں، اس مجموعے میں بھی بہت سی چیزیں شائع نہیں ہوئی ہے۔ میں تدریسی اور گھریلو ذمہ داریوں میں بھی مصروف ہوں۔ چونکہ تدریس کے ساتھ ساتھ میں تحقیق سے بھی وابستہ ہوں۔ تو یہ فل ٹائم جاب ہے ۔ اب تخلیق اور تحقیق ایک دوسرے سے بہت دور کی چیزیں سمجھی جاتی ہیں۔ میں کسی نہ کسی حد تک ان دونوں کو ایک دوسرے سے قریب کرنے کی کوشش کرتی ہوں لیکن یہ حقیقت ہے کہ تخلیق بہت وقت لیتی ہے اور پوری توجہ چاہتی ہے۔ اسی لئے میری شعری تخلیقات کا سفر بہت سست رفتار ہے۔
س 7 آخر میں طلبہ کے لئے کوئی خاص پیغام دینا چاہیں گی۔
ج طلبہ کے لئے میرا پیغام بہت سادہ ہے کہ آپ خود کے ساتھ انصاف کرنے اگر آپ کے والدین کو پڑھا رہے ہیں تو خود کو کامیاب انسان بنا کر ان کے سامنے پیش کرے۔
----------------------------------
اویس احمد صدیقی 2k13/MC/23 Improver/Failure
کراچی کا "فری میسن لان" اب کس حال میں ہے؟ (فیچر)بہت زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ شہر کراچی میں ایک فری میسن ہال موجود تھا۔ شاید آپ کو یقین نہ ۂے لیکن یہ عمارت آج بھی صدر کے علاقے میں فوارہ چوک کے قریب موجود ہے۔ عبداﷲ ہارون روڈ کی ابتداء کرنے والے چوراہے پر ایک جانب ٹرینٹی چرچ ہے۔ اس سے بالکل متصل دائیں جانب ایک پرانی،ل انگریزوں کے دور کی بنی ہوئی ایک عمارت اس دور کی عکاسی کرتی نظر آئے گی جب کراچی "کولاچی" کہلاتا تھا۔ یہی فری میسن ہال کی عمارت ہے، جس کا نام کبھی " دی ہوپ لاج " (The Hope Lodge) تھا۔ اس عمارت کے بالمقابل ایک راستہ کراچی پریس کلب کو جاتا ہے۔ آج کراچی کی نئی نسل نہ تو فری میسنز سے آگاہ ہے اور نہ ہی "ہوپ لاج " کے بارے میں کچھ جانتی ہے اور جو لوگ جانتے ہیں، ان سے اگر آپ کچھ معلوم کرنے کی کوشش کریں تو وہ اپنے لب سی لیتے ہیں۔
بہت سے مسلمان ریسرچرز اور مصنفین کا خیال ہے کہ فری میسن وہ فرقہ ہے جسے یہودی لاج کی جانب سے فنڈز فراہم کئے جاتے ہیں اور وہی ان کی سر پرستی کرتی ہے ۔ لیکن کراچی کی حد تک یہ بات یوں خلاف حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ تقسیم ہند سے پہلے اور اس کے بعد بھی فری میسنز کے ساتھ ایک سے زیادہ مسلمان رکن ہمیشہ دیکھے جاتے رہے ہیں۔ کراچی کے "دی ہوپ لاج " میں آج بھی سنگ مر مر کی ایک تختی نصب ہے جس پر کندہ کچھ نام پڑھنے والوں کو حیرت میں مبتلا کردیتے ہیں۔ تقسیم ہند سے پہلے کے کراچی میں سے ایک نام جام ایوب عالیانی کا ہے۔ دو دیگر مسلم ناموں میں ایک ایم ایم آر شیرازی اور دوسرے ایم جی حسن ہیں۔ جام ایوب فری میسن کے صرف رکن تھے، جبکہ موخر الذ کر دونوں افراد تنظیم کے عہدیداران کی حیثیت سے کام کررہے تھے۔ ہندو فری میسنز میں ڈبلیو ایف بھو جوانی، اے ایف کلیانی والا اور کے پی ایڈوانی کے نام قابل ذکر ہے ں جبکہ پارسی ارکان میں جمیشۃ این ایف مہتہ اور ڈی ایف سیٹھنا کا نام نمایاں ہے۔
"دی ہوپ لاج " کے چوکیدار جیون کا کہنا ہے کہ انگریز دور میں جس وقت یہ لاج فعال تھا یہاں بڑی چہل پہل ہوا کرتی تھی جہاں انگریز، مسلمان، پارسی، ہندو سب شام 6بجے اپنی آسٹن کاروں یا وکٹوریہ بگھیوں میں پہنچنا شروع ہوجاتے تھے۔ اس وقت ہوپ لاج کراچی کے چند کلبوں میں سے ایک تھا۔ قریبی وائی ایم سی اے میں اکثر غیر ملکی مہمان ٹھہرا کرتے تھے۔ سندھ کلب اور یونین جیک کلب جس کا نام اب سروسز کلب ہے۔ میں بھی رونق میلا لگا رہتا تھا۔ جس سڑک پر آج کراچی پریس کلب ہے وہ رائل اےئر فورس لین کہلاتی تھی، فوارہ چوک کے پاس ایک مجسمہ نصب تھا یہ ساری چیزیں ماضی کا حصہ بن چکی ہیں۔
ممتاز محقق محمد عثمان دموہی اپنی کتاب "کراچی تایخ کے آئینے میں " رقم طراز ہیں " انگلستان کے شاہ جارج پنجم کی اجازت سے جام ایوب علیابی، جون 1894ء میں ایران کے لئے وائس قونصل بنائے گئے۔ وہ 1927ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔ ان دونوں فری میسنزکی سرگرمیاں عروج پر تھیں۔ یہ فرقہ اکثر بیشر کراچی میں ثقافتی تقریبات اور پروگرامز منعقد کیا کرتا تھا۔ جام ایوب اس تنظیم کے اعزازی رکن تھے۔ ان دنوں فری میسنز کے اغرااض و مقاصد کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا"
کراچی میں "دی ہوپ لاج " کی وہ عمارت جو کبھی فری میسن تنظیم کے ارکان کی تقریبات کا اہم مرکز ہوا کرتی تھی، اب وہاں کوئی رونق اور چہل پہل دیکھنے میں نہیں آتی۔ کیونکہ اس عمارت میں " سندھ وائلڈ لائف" کا دفتر قائم کردیا گیا ہے۔ 19جولائی 1973 کو کراچی کے اخبارات میں شائع ہونے والی ایک خبر کی سرخی تھی "شہر م یں واقع فری میسن ہال سرکاری تحویل مجیں لے لیا گیا" خبر کی تفصیل میں درج تھا کہ " ایک مجسٹریٹ کی قیادت میں سرکاری ٹیم نے حکومت سندھ کے احکامات کے تحت فری میسن ہال پر تالا لگادیا ہے۔ ٹیم نے عمارت میں موجود تمام دستاویزات اور سامان بھی ضبط کرلیا " ۔ " کراچی میں لاج یعنی دی ہوپ لاج " کا سنگ بنیاد 1843 ء میں رکھا گیا تھا۔ سندھ وائلڈ لائف کا دفتر تاریخی اہمیت کا حامل ہے لیکن یہ عمارت 1845 میں تعمیر ہوئی تھی اور آج یہ عمارت بہت خستہ حال ہوچکی ہے سندھ وائلڈ کے محکمے کو سالانہ بجٹ کے طور پر لاکھوں روپے ملتے ہیں لیکن پھر بھی کوئی کام ہوتا نظرنہیں آتا جس کی وجہ سے یہ عمارت اپنی اہمیت کھو رہی ہے اور یہ عمارت کھنڈرات ہوتی جارہی ہے۔
کراچی کا "فری میسن لان" اب کس حال میں ہے؟ (فیچر)بہت زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ شہر کراچی میں ایک فری میسن ہال موجود تھا۔ شاید آپ کو یقین نہ ۂے لیکن یہ عمارت آج بھی صدر کے علاقے میں فوارہ چوک کے قریب موجود ہے۔ عبداﷲ ہارون روڈ کی ابتداء کرنے والے چوراہے پر ایک جانب ٹرینٹی چرچ ہے۔ اس سے بالکل متصل دائیں جانب ایک پرانی،ل انگریزوں کے دور کی بنی ہوئی ایک عمارت اس دور کی عکاسی کرتی نظر آئے گی جب کراچی "کولاچی" کہلاتا تھا۔ یہی فری میسن ہال کی عمارت ہے، جس کا نام کبھی " دی ہوپ لاج " (The Hope Lodge) تھا۔ اس عمارت کے بالمقابل ایک راستہ کراچی پریس کلب کو جاتا ہے۔ آج کراچی کی نئی نسل نہ تو فری میسنز سے آگاہ ہے اور نہ ہی "ہوپ لاج " کے بارے میں کچھ جانتی ہے اور جو لوگ جانتے ہیں، ان سے اگر آپ کچھ معلوم کرنے کی کوشش کریں تو وہ اپنے لب سی لیتے ہیں۔
بہت سے مسلمان ریسرچرز اور مصنفین کا خیال ہے کہ فری میسن وہ فرقہ ہے جسے یہودی لاج کی جانب سے فنڈز فراہم کئے جاتے ہیں اور وہی ان کی سر پرستی کرتی ہے ۔ لیکن کراچی کی حد تک یہ بات یوں خلاف حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ تقسیم ہند سے پہلے اور اس کے بعد بھی فری میسنز کے ساتھ ایک سے زیادہ مسلمان رکن ہمیشہ دیکھے جاتے رہے ہیں۔ کراچی کے "دی ہوپ لاج " میں آج بھی سنگ مر مر کی ایک تختی نصب ہے جس پر کندہ کچھ نام پڑھنے والوں کو حیرت میں مبتلا کردیتے ہیں۔ تقسیم ہند سے پہلے کے کراچی میں سے ایک نام جام ایوب عالیانی کا ہے۔ دو دیگر مسلم ناموں میں ایک ایم ایم آر شیرازی اور دوسرے ایم جی حسن ہیں۔ جام ایوب فری میسن کے صرف رکن تھے، جبکہ موخر الذ کر دونوں افراد تنظیم کے عہدیداران کی حیثیت سے کام کررہے تھے۔ ہندو فری میسنز میں ڈبلیو ایف بھو جوانی، اے ایف کلیانی والا اور کے پی ایڈوانی کے نام قابل ذکر ہے ں جبکہ پارسی ارکان میں جمیشۃ این ایف مہتہ اور ڈی ایف سیٹھنا کا نام نمایاں ہے۔
"دی ہوپ لاج " کے چوکیدار جیون کا کہنا ہے کہ انگریز دور میں جس وقت یہ لاج فعال تھا یہاں بڑی چہل پہل ہوا کرتی تھی جہاں انگریز، مسلمان، پارسی، ہندو سب شام 6بجے اپنی آسٹن کاروں یا وکٹوریہ بگھیوں میں پہنچنا شروع ہوجاتے تھے۔ اس وقت ہوپ لاج کراچی کے چند کلبوں میں سے ایک تھا۔ قریبی وائی ایم سی اے میں اکثر غیر ملکی مہمان ٹھہرا کرتے تھے۔ سندھ کلب اور یونین جیک کلب جس کا نام اب سروسز کلب ہے۔ میں بھی رونق میلا لگا رہتا تھا۔ جس سڑک پر آج کراچی پریس کلب ہے وہ رائل اےئر فورس لین کہلاتی تھی، فوارہ چوک کے پاس ایک مجسمہ نصب تھا یہ ساری چیزیں ماضی کا حصہ بن چکی ہیں۔
ممتاز محقق محمد عثمان دموہی اپنی کتاب "کراچی تایخ کے آئینے میں " رقم طراز ہیں " انگلستان کے شاہ جارج پنجم کی اجازت سے جام ایوب علیابی، جون 1894ء میں ایران کے لئے وائس قونصل بنائے گئے۔ وہ 1927ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔ ان دونوں فری میسنزکی سرگرمیاں عروج پر تھیں۔ یہ فرقہ اکثر بیشر کراچی میں ثقافتی تقریبات اور پروگرامز منعقد کیا کرتا تھا۔ جام ایوب اس تنظیم کے اعزازی رکن تھے۔ ان دنوں فری میسنز کے اغرااض و مقاصد کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا"
کراچی میں "دی ہوپ لاج " کی وہ عمارت جو کبھی فری میسن تنظیم کے ارکان کی تقریبات کا اہم مرکز ہوا کرتی تھی، اب وہاں کوئی رونق اور چہل پہل دیکھنے میں نہیں آتی۔ کیونکہ اس عمارت میں " سندھ وائلڈ لائف" کا دفتر قائم کردیا گیا ہے۔ 19جولائی 1973 کو کراچی کے اخبارات میں شائع ہونے والی ایک خبر کی سرخی تھی "شہر م یں واقع فری میسن ہال سرکاری تحویل مجیں لے لیا گیا" خبر کی تفصیل میں درج تھا کہ " ایک مجسٹریٹ کی قیادت میں سرکاری ٹیم نے حکومت سندھ کے احکامات کے تحت فری میسن ہال پر تالا لگادیا ہے۔ ٹیم نے عمارت میں موجود تمام دستاویزات اور سامان بھی ضبط کرلیا " ۔ " کراچی میں لاج یعنی دی ہوپ لاج " کا سنگ بنیاد 1843 ء میں رکھا گیا تھا۔ سندھ وائلڈ لائف کا دفتر تاریخی اہمیت کا حامل ہے لیکن یہ عمارت 1845 میں تعمیر ہوئی تھی اور آج یہ عمارت بہت خستہ حال ہوچکی ہے سندھ وائلڈ کے محکمے کو سالانہ بجٹ کے طور پر لاکھوں روپے ملتے ہیں لیکن پھر بھی کوئی کام ہوتا نظرنہیں آتا جس کی وجہ سے یہ عمارت اپنی اہمیت کھو رہی ہے اور یہ عمارت کھنڈرات ہوتی جارہی ہے۔
No comments:
Post a Comment