Sunday, 5 February 2017

ٹیلی ویژن صحافت کا المیہ : فہد علی نقوی


پاکستان میں ٹیلی ویژن صحافت کا المیہ(آرٹیکل)
سید فہد علی نقوی (imrover - failure) 
ہر قوم کا ایک نظریہ ایک ایجنڈا اور ایک اخلاقی سانچہ ہوتا ہے اور اس قوم کے ذرائع ابلاغ ان تمام چیزوں کو پیشِ نظر رکھ کر مواد تیار کرتے ہیں۔لیکن ہمارے ذرائع ابلاغ کے موادمیں نہ کہیں کوئی دو قومی نظریہ جھلکتا ہے نہ ہمارے مذہب کی اقداریہاں تک کے ہمارے ذرائع ابلاغ تعلیم، غربت،صحت،قومی یکجہتی اور حقیقی جمہوری رویّوں تک کو اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں۔
مثال مشور ہے ’’کھودا پہاڑ نکلا چوہا‘‘۔تاہم پاکستان میں یہ مثال بدل کر کچھ سے کچھ ہو گئی ہے، اب اس مثال کو یوں بھی پڑھ سکتے ہیں:’’کھودا پاکستان کے ٹیلی ویژن نکلا شیخ رشید‘‘۔ بعض لوگ گمان کر سکتے ہیں کہ ان فقروں میں شیخ رشید اور چوہے کی تذلیل کی گئی ہے مگر ایسا نہیں ہے،مثال کے بدل جانے کی ایک ٹھوس اور معروضی وجہ ہے۔بی بی سی کی اردو ویب سائٹ کے مطابق گزشتہ دس ماہ میں پاکستان کے آزاد ٹیلی ویژن چینلز نے مختلف سیاستدانوں کے جو خصوصی یا Exclusiveانٹرویوز نشر کیے ہیں انکی تفصیل ناموں کے اعتبار سے کچھ اس طرح ہے ۔
شیخ رشید کے 170انٹرویوزعمران خان کے 75انٹرویوزڈاکٹر طاہر القادری کے 60انٹرویوز۔گزشتہ دس ماہ کے دوران میاں نواز شریف اور شہباز شریف کے 100انٹرویوز مختلف چینلز سے نشر ہوئے جبکہ پیپلز پارٹی ،ایم کیو ایم،جماعتِ اسلامی اور اے این پی کے رہنماؤں کے بھی کم و بیش سو انٹرویوز اس عرصے میں نشر ہوئے۔ یہاں اس امر کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ انٹرویوز کی یہ تعداد عمران خان اور طاہر القادری کے دھرنے سے پہلے کی ہے۔پاکستان میں ٹیلی ویژن صحافت کا ایک ایسا بھیانک چہرہ ہے جسے اگر اس صحافت کے ذمہ دار خود بھی غور سے دیکھ لیں تو ڈر جائیں،پاکستان کی ٹیلی ویژن صحافت سے متعلق مذکورہ حقائق کو دیکھا جائے تو اس صحافت نے شیخ رشید کے مقابلے میں تمام سیاسی جماعتوں اور سیاسی رہنماؤں کو پیچھے چھوڑ دیا ۔ اس وقت ملک کی سب سے بڑی پارلیمانی قوّت مسلم لیگ (ن) ہے تاہم اسکے وزیرِ اعظم اورپنجاب کے وزیرِاعلیٰ کو مجموعی طور پر دس ماہ میں 100بار ٹیلی ویژن پر پیش کیا گیا، اسکے برعکس پارلیمنٹ میں ایک سیٹ کی شہرت رکھنے والے شیخ رشید کو 170مرتبہ ٹیلی ویژن پر جلوہ افروز ہونے کا موقع دیا گیا ، ملک کی دوسری بڑی پارلیمانی جماعت پیپلز پارٹی ہے مگر اسکے رہنما انٹرویوز کے معاملے میں شیخ رشید سے کوسوں دور کھڑے ہیں ۔پاکستان کی تیسری بڑی پارلیمانی جماعت تحریکِ انصاف ہے مگر اسکے رہنماعمران خان شیخ رشید سے شکست کھا گئے۔اس لیے کے دس ماہ میں شیخ رشید کے 170اور عمران خان کے صرف75انٹرویوز نشر ہو سکے۔ اس سلسلے میں طاہر القادری کی شعلہ بیانی بھی انکے کام نہ آسکی اور شیخ رشید نے انٹرویوز کی دوڑ میں طاہر القادری کو بھی پیچھے چھوڑ دیا، اس لیے کہ گزشتہ دس ماہ میں شیخ رشید کے170اور طاہرالقادری کے حصّے میں صرف 60انٹرویوز آسکے، اس سلسلے میں جماعتِ اسلامی اوراین پی کیا ایم کیو ایم بھی شیخ رشید کا مقابلہ نہ کر سکی ۔اس تناظر میں دیکھا جائے تو شیخ رشید کے انٹرویوز کی تعدادپاکستان میں ٹیلی ویژن صحافت کا المیہ بن کر ابھری ہے۔ٹیلی ویژن کو احمق ڈبّا یا( idiot box)کہا جاتا ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ ٹیلی ویژن سے نشر ہونے والے مواد میں کتاب اور اخباروجرائد کے مواد کی طرح گہرائی نہیں ہوتی بلکہ اس کے برعکس اس پر سطحیت کا غلبہ ہوتا ہے مگرشیخ رشید کے انٹرویوز کی تعدا د کو دیکھا جائے توکہا جا سکتا ہے پاکستان میں آزاد چینلز کے ذمہ داروں نے ٹیلی ویژن کو idiot boxکے ساتھ idiots boxیعنی احمقوں کا ڈبّا بھی بنا دیا ہے۔یعنی اس سارے ذریعے اور میڈیم سے مواد نشر کرنے والے بھی احمق ہیں اور اس مواد کو دیکھنے والے بھی احمق ہیں۔نشر کرنے والے اس لحا ظ سے کہ وہ دس ماہ میں شیخ رشید کے170انٹرویوز نشر کر رہے ہیں اورادیکھنے والے اس لیئے کہ وہ دس ماہ میں شیخ رشید کے 170انٹرویوز دیکھ کر بھی احتجاج نہیں کرتے،لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان کے نام نہادآزاد ٹیلی ویژن نے ایک سیٹ رکھنے والے شیخ رشید کو اتنی اہمیت کیوں دی؟
بعض لوگ اس بات پر اصرار کرتے نظر آتے ہیں کہ شیخ رشید کی شخصیت اور سیاست پر ایجنسیوں کا سایہ ہے، ہو سکتا ہے کہ یہ بات غلط ہو لیکن اگر ملک کے آزاد چینلزدس ماہ میں شیخ رشید کے 170انٹرویوز نشر کر رہے ہیں تو اکثرلوگ یہ سمجھنے میں حق بجانب ہونگے کہ یقیناًشیخ رشید کی پشت پر کوئی نہ کوئی موجود ہے ایسا نہ ہوتا تو ٹیلی ویژن کی صحافت میں اتنی اہمیت کیوں ملتی؟لیکن اس خیال میں صرف شیخ رشید اور ایجنسیوں کی مذمت موجود نہیں ہے،بلکہ اس میں نام نہاد آزاد چینلز کی مذمت موجود ہے کیونکہ شیخ رشید کے 170انٹرویوز ثابت کر کے چینلز نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ کتنے آزاد ہیں ،لیکن یہاں آزادی لفظ صرف سیاسی معنوں میں استعمال نہیں کیا گیا ۔یہاں آزادی کا مفہوم یہ بھی ہے کہ ہمارے چینلز شیخ رشید سے بلند ہو کر سوچنے کے قابل نہیں، اس صورتِ حال کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ ہمارے آزاد چینلز کی ذہنی سطح صرف شیخ رشید کے برابر ہے۔
شیخ رشید کو اہمیت دینے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ شیخ رشید کی ہر گفتگو میں ایک اسکینڈل کلام کرتا نظر آتا ہے،اسکینڈل کی پیش رفت زرد صحافت کی پہچان ہے،لیکن کہنے والے کہتے ہیں کہ اسکینڈل بھی زندگی کا حصہ ہے اور یہ بات ایک حد تک درست ہے لیکن مسلۂ یہ ہے کہ ہمارے نام نہاد�آزاد چینلز نے دس ماہ میں شیخ رشید کے 170انٹرویوز نشر کر کے اسکینڈل اور اسکی پیش رفت کو معمول بنا دیاہے۔
شیخ رشید کو قوم کے اعصاب پر سوار کرنے کا ایک سبب یہ ہو سکتا ہے کہ شیخ رشید کی گفتگو میں سنسنی خیزی اور الزامات کا چٹخارہ ہو تا ہے،اسکے معنی یہ ہیں کہ پاکستان کی ٹیلی ویژن صحافت معاشرے میں سنجیدگی کے نام پر سنسنی خیزی اور الزامات کا کلچر پیدا کر رہی ہے، اور یہ ملک و قوم سے کھلی دشمنی ہے اس لیئے کہ جس قوم کو سنسنی خیزی اور الزامات کی عادت ہوجائے اسکے لیے کوئی سنجیدہ بات سننا نا ممکن ہو جاتا ہے۔
ہمارے آزاد ٹیلی ویژ ن کا ایک مر ض درجہ بندی کی دوڑ میں سبقت یعنی کہ ratingہے۔لیکن جس ریٹنگ سے ملک میں اسکینڈل کی نفسیات عام ہو،جس ریٹنگ سے معاشرے میں سنسنی خیزی پھیلے،جس ریٹنگ سے عوام میں الزام تراشی کی نفسیات کو فروغ حاصل ہو وہ ریٹنگ ملک و قوم کے لیے زہرِقاتل ہے اور بدقسمتی سے ہماری صحافت بالخصوص ٹیلی ویژن کی صحافت اس زہر کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے میں دن رات مصروف ہے۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس صورتحال کی وجہ یہ ہے کہ ملک میں ٹیلی ویژن چینلز کا تجربہ نیا ہے، کچھ وقت کے بعد یہ چینلزاپنے منفی تجربات سے بہت کچھ سیکھیں گے اور خود کو درست کرلینگے۔یہ بات ایک حد تک درست ہے لیکن مسلۂ یہ ہے کہ ہمارے چینلز ابتداء ہی سے منفی چیزوں کو رویّہ اور رجحان بنا رہے ہیں اور جب کوئی چیز رویّہ اور رجحان بن جاتی ہے تو اسکو ختم کرنا نا ممکن نہیں تو بہت مشکل ضرور ہو جاتا ہے۔ اسکی ایک مثال ہماری فلم انڈسٹری ہے اس انڈسٹری نے یہ کہہ کر بدمذاقی اور پھکڑ پن کو عام کیاکہ عوام یہی چاہتے ہیں لیکن اصل بات یہ تھی کہ فلمی صنعت کے لوگوں نے پہلے پست چیزوں کو عام کیا اور جب عوام ان چیزوں کے عادی ہو گئے تو پست چیزوں کی ذمہ داری عوام پر ڈال دی، ہمارے آزاد ٹیلی ویژن بھی یہی کرینگے انکے لیئے ریٹنگ کی بڑھتی ہوئی اہمیت ظاہر کر رہی ہے کہ وہ آج نہیں تو کل ہر پست اور فضول چیز کی ذمہ داری عوام پر ڈال دینگے۔
قائد اعظم نے کہا تھا قوم اور صحافت کا عروج و زوال ایک ساتھ ہوتا ہے لیکن قائد اعظم نے جب یہ بات کہی تو اس وقت صحافت ایک مشن تھی اور صحافت کا منفی پہلو محض ایک اندیشہ تھا ۔مگر اب مسلۂ یہ ہو گیا ہے کہ صحافت کے منفی پہلو ہمارا حال بن گئے ہیں اور صحافت کی رہنمائی محض ایک امکان بن کر رہ گئی ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ہماری صحافت با لخصوص ٹیلی ویژن کی صحافت کسی بھی اعتبار سے کوئی صحافت نہیں رہ گئی ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ ہر قوم کا ایک نظریہ ایک ایجنڈا اور ایک اخلاقی سانچہ ہوتا ہے اور اس قوم کے ذرائع ابلاغ ان تمام چیزوں کو پیشِ نظر رکھ کر مواد تیار کرتے ہیں۔لیکن ہمارے ذرائع ابلاغ کے موادمیں نہ کہیں کوئی دو قومی نظریہ جھلکتا ہے نہ ہمارے مذہب کی اقدار،
انکے لیے کچھ اہم ہے تو مرغوں کی لڑائی کی طرح برپا کیے ہوئے ٹاک شوز، انکے نزدیک کوئی شے قابلِ قدر ہے تو اسکینڈل، انکے نزدیک کوئی چیزفروغ دیئے جانے کے لائق ہے تو وہ ہے سنسنی خیزی، انکی دلچسپی ہے تو الزامات کی نفسیات کو عام کرنے میں ۔دنیا میں جہاں ذرائع ابلاغ کسی مذہب، کسی نظریے، کسی اخلاقی سانچے کے قائل نہیں ہوتے وہاں بھی ذرائع ابلاغ کم از کم معروضیت یا objectiveکی پاسداری ضرور کرتے ہیں ، لیکن ہمارے یہاں ذرائع ابلاغ معروضیت کا بھی گلا گھونٹ رہے ہیں۔آخر جو ذرائع ابلاغ دس ماہ میں شیخ رشید کے 170انٹرویوز نشر کر رہے ہوں وہ معروضی ہونے کا دعویٰ کیسے کر سکتے ہیں !

سید فہد علی نقوی
2K15/MMC/49 (M.A PASS)

No comments:

Post a Comment