Wednesday 3 April 2019

Mehnaz Sabir

Mehnaz Sabir imrpover faialure

بادام....یاداشت کے لئے اکسیر

قدرت کی طرف سے انسان کے لئے عطا کردہ نعمتوں میں سے ایک نعمت خشک میوہ جات بھی ہیں،اور ان میوہ جات میں سرِفہرست’’بادام‘‘ہیں۔بادام کی غذائی افادیت کی وجہ سے انہیں میوہ کا بادشاہ بھی کہا جاتا ہے۔بادام کے اجزاء ترکیبی میں حیاتین ب(تھایا مین)،حیاتین ب (2)(رابنوفلاوین)،نایا مین،کیلیشیم،فولاد،فاسفورس ،نشاستہ،چکنائی ،پروٹین،پوٹاشیم اور فاسفیٹ شامل ہیں۔ان سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بادام بچوں،نوجوانوں اور بوڑھے افراد کے لئے یکساں مفید ہیں۔

بادام سے اعصاب مضبوط ہوتے ہیں اور جسم کی بھی نشوونما ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ پہلوان اور باڈی بلڈرز(تن ساز) خاص طور پر بادام کا استعمال کرتے ہیں۔بادام کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ انہیں کھانے سے جسم میں چربی نہیں بڑھتی،بلکہ کیلشیم کی کمی پوری ہو جاتی ہے اور یوں دانت اور ہڈیاں مضبوط اور مستحکم ہوتے ہیں۔زود ہضم ہونے کی وجہ سے بادام دماغ اور بینائی کے لئے بھی انتہائی مفید ہیں،خصوصاً دماغی کام کرنے والوں کے لئے تو بادام نعمتِ خداوندی ہیں۔بادام میں چوں کہ حراروں کی کافی مقدار ہوتی ہے(ایک سو گرام بادام میں چھ سو حرارے موجود ہوتے ہیں)،اس لئے موسم سرما میں ان کا استعمال بہت مفید ہوتا ہے۔
بعض اوقات گرم مزاج لوگوں کو بادام موافق نہیں آتے،تو ایسے لوگ بادام کا استعمال سردائی کی صورت کر سکتے ہیں،جو خالصتاً ایک مشرقی مشروب ہے۔سردائی کی تیاری کا طریقہ درج ذیل ہے۔دودھ ایک کلو،مغزِبادام15عدد،خشخاش ایک چائے کا چمچہ،چھوٹی الائچی دو عدد،سونف ایک چمچ،مغزِ پستہ10عدد،شہد ایک چمچ۔ان اشیاء کو دودھ میں پیس کر برف سے ٹھنڈا کر کے استعمال کریں،نہ صرف طبیعت کو فرحت حاصل ہو گی،بلکہ جسم کو توانائی بھی ملے گی۔
قدرت کی اس نعمت سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لئے ضروری ہے کہ موسم کی مناسبت اور درست طریقے سے اس کا استعمال کیا جائے۔اطباء صدیوں سے اس کا استعمال کرتے آ رہے ہیں۔جو لوگ دماغی کام،مثلاً لکھنے پڑھنے کا کام کرتے ہیں،انہیں لازماً بادام کا استعمال کرنا چاہئے۔اس مقصد کے لئے روزانہ دس عدد مغز بادام خوب چبا کر کھا لیا کریں۔جن لوگوں کو گلے میں بلغم کی شکایت ہویا دن بھر گلا کھنکار کر صاف کرتے ہوں،جسے نزلہ گرنا یا کیرا بھی کہتے ہیں،تو وہ روزانہ صبح نہار منہ پانچ عدد بادام،تین عدد کالی مرچ کے ساتھ خوب چبا کر کھا یا کریں۔جو لوگ اوائل عمر سے یہ معمول باندھ لیتے ہیں،وہ دماغی واعصابی کم زوری سے محفوظ رہتے ہیں۔
طلبہ کو دماغی استعداد قائم رکھنے یایاداشت بڑھانے کے لئے بادام کا استعمال روز مرہ کی غذا میں شامل رکھنا چاہئے۔اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ رات کو سات بادام پانی میں بھگو دیں اور صبح نہار منہ چھیل کر کھا لیں۔یہ نسخہ دماغی توانائی برقراررکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔بادام کا دودھ بھی ایک عمدہ غذا اور لاجواب مشروب ہے۔اس کے اندر پروٹین وافر مقدار میں موجود ہوتی ہے۔خون کی کمی،آنتوں کے امراض اور جگر کے لئے انتہائی مفید ہے۔بادام کا روغن بھی کشید کیا جاتا ہے۔جو بہترین اثرات رکھتا ہے۔طب میں اس روغن کا استعمال قبض کُشا کے طور پرکیا جاتا ہے۔یہ روغن آنتوں اور دماغ کی خشکی کو دور کرتا ہے۔قبض ختم کرنے کے لئے ایک گلاس دودھ میں دو چمچ روغن بادام ملا کر پی لیں،بہت جلد قبض سے نجات مل جائے گی۔
بادام پر کی گئی ایک جدید تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اس کے مستقل استعمال سے خون میں کولیسٹرول کی سطح کم کی جا سکتی ہے۔نیز، بادام صحتِ قلب کے لئے بھی مفید ہے۔اس سے قبل بادام میں موجود چکنائی کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ اس سے وزن بڑھتا ہے،مگر اس نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ یہ تجزیہ غلط ہے۔
امریکا میں لاس اینجلس کے طبی مرکزِ تحقیقات کے ڈائریکٹر،ڈاکٹر جین اسپیلر کی تازہ ترین تحقیق کے مطابق مردوں اور خواتین کے تین گروپس کو(اُن سب کا کولیسٹرول بڑھا ہوا تھا)ایسی غذائیں کھلائی گئیں،جو امراضِ قلب میں مفید تھیں۔اضافی چکنائی کے طور پرایک گروپ کو زیتون کا تیل،دوسرے کو مکھن اور تیسرے کو بادام دئیے گئے۔جب چار ہفتوں بعد کولیسٹرول کی پیمائش کی گئی،تو پتا چلا کہ بادام کھانے والے گروپ میں کولیسٹرول کی سطح نسبتاًکم رہی،جب کہ زیتون اورپنیر کھانے والوں کے کولیسٹرول میں اضافہ ہوا۔ڈاکٹر جین کہتے ہیں کہ ’’ابھی ہم کسی حتمی نتیجے تک نہیں پہنچے،بات قیافے اور قیاس تک ہے،تا ہم جو لوگ اپنا کولیسٹرول کم کرنا چاہتے ہیں،انہیں چاہیے کہ وہ اپنی غذا میں بادام ضرور شامل رکھیں‘‘۔


------------------------------------- 

نایاب نسل کے پرندوں اور جانوروں کا غیر قانونی شکار

سندھ میں جب بہار آئے تو سارا حسن گویا جنگلات میں سمٹ آتا ہے۔کراچی اور حیدرآباد کی حدود سے نکلتے ہی کھیتوں کی برساتی مہک بہکانے لگتی ہے۔سانگھڑ سے لاڑکانہ تک کی جھیلوں میں پرندوں کا شور بڑھ جاتا ہے۔تھر کے صحرا میں بادِ صبابے قرار پھرتی ہے اور دریائے سندھ کے پانی میں لہر لہر مچل جاتی ہے۔
یہ موسم دور دیس سے آئے خوبصورت مہمان پرندوں کی واپسی کا ہے مگر اکثر اوقات واپسی میں ان کی تعدادبے حد کم ہو جاتی ہے،اس کی وجہ ان کا بے رحمانہ اور غیر قانونی شکار ہے۔دنیا بھر میں جنگلات اور ان میں بسنے والے جانوروں کی حفاظت کے لئے سرجوڑ کر بیٹھا جاتا ہے،طرح طرح کے طریقے آزمائے جاتے ہیں مگر افسوس صد افسوس کہ پاکستان ان معاملات میں بھی بے پروائی اور غفلت کا شکار ہے۔جس وڈیرے،جس زمیندار،جس سرمایہ دار کا دل چاہتا ہے،وہ بندوق اُٹھا کر سندھ کی حسین جھیلوں کو معصوم پرندوں کے خون سے لال کر دیتا ہے۔
سندھ کی جھیلوں اور دیگر آب گاہوں میں انہی حسین پرندوں کے باعث رونق ہے۔سائبیریا اور روس سے آنے والے یہ مہمان نومبر سے فروری کے اواخر تک دکھائی دیتے ہیں۔ان کی آمد کا موسم شروع ہوتے ہی شکاریوں کے جال بھی بچھ جاتے ہیں وہ بندوقیں تھامے ہر رکاوٹ دور کرتے جنگلوں اور ویرانوں میں بھٹکتے پھرتے ہیں،آبی خوراک کی تلاش میںیہ معصوم پرندے ہالیجی جھیل کو بھر دیتے تھے مگر اب وہاں پرندوں کی نسل ختم ہوتی جا رہی ہے۔محکمہ وائلڈ لائف کے اہلکار جانوروں سے محبت کا دعویٰ تو کرتے ہیں مگر ان کے شکار کے لئے سہولتیں بھی یہی لوگ دیتے ہیں۔
سندھ کے علاوہ بلوچستان بھی شکاریوں کی پسندیدہ جگہ ہے ،جہاں موسم سرما کے اواخر میں تلور کا شکار بے دریغ کیا جاتا ہے۔برطانوی نشریاتی ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق بلوچستان کے علاقے چاغی اوربعض دوسرے صحرائی علاقوں میں شکاریوں کے کیمپ قائم ہو جاتے ہیں جو نایاب نسل کے تلور کا صفایا کرنے کے لئے اپنی بندوقیں چمکاتے ہیں،ان شکاریوں کو جاری کردہ پرمٹ میں محدود تعداد میں شکار کی اجازت دی جاتی ہے مگر یہ لوگ قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے اپنی من مانی کرتے ہیں۔دس دنوں میں انھیں صرف 100تلور کے شکار کی اجازت دی جاتی ہے مگرایک اندازے کے مطابق ایک دن میں یہ لوگ دو،تین سو تلور شکار کر لیتے ہیں اور کسی پابندی کو خاطر میں نہیں لایا جاتا۔اس کے باوجود کہ بلوچستان ہائی کورٹ نے ۲۰۱۴ء میں اپنے ایک فیصلے میں شکاریوں کوشکار گاہیں الاٹ کرنے کی مخالفت کی تھی۔عدالت نے کہا تھاکہ جن جنگلی جانوروں کی نسل کی معدومی کا خطرہ لاحق ہو ،ان کے شکار کی اجازت ہر گز نہیں دی جانی چاہیے۔اس لئے وفاقی اور صوبائی حکومتیں جنگلی حیات کے شکار کے بجائے ان کے تحفظ کے لئے اقدامات کریں۔۲۰۱۴ء میں ہی بلوچستان اسمبلی میں یہ بازگشت بھی سنی گئی تھی کہ خلیجی ریاست کے ایک شہزادے نے تلور کی نسل کشی کرتے ہوئے2100پرندوں کا شکار کیا جو ایک ایکارڈ ہے۔
پاکستان کے برعکس بھارت اور نیپال میں غیر قانونی شکار کے خاتمے کے لئے بڑے پیمانے پر اقدامات کئے جاتے ہیں،وہاں حکومت جنگلی جانوروں کے تحفظ اور بقا کے لئے تشہیری مہم پر لاکھوں ڈالر خرچ کر رہی ہے۔تحفظ حیوانات سے متعلق عالمی اداراے’’ڈبلیو ڈبلیو ایف‘‘ کے مطابق اس خطے (جنوبی ایشیا)میں شیروں کے تحفظ کے معاملے میں نیپال اور بھارت سب سے آگے ہیں۔حالیہ برسوں کے دوران بھارت میں شیروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے،اسی طرح نیپال میں کسی ایک شیر کا بھی غیر قانونی شکارنہیں کیا گیا مگر پاکستان میں گزشتہ کئی دہائیوں سے غیر قانونی شکار کا سلسلہ جاری ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ موسم سرما میں سائبیریا اور دیگر سرد ترین مقامات سے پاکستان آنے والے مہمان آبی پرندوں کی تعداد بھی کم ہوتی جا رہی ہے،اس کی اہم وجہ تو غیر قانونی شکار ہی ہے،اس کے علاوہ سندھ کی جھیلوں میں ان پرندوں کی پسندیدہ غذا ایک خاص قسم کے بیج اور پتّے ہیں مگرفصلوں اور کھیتوں میں کیڑے مار ادویات کے بے تحاشا چھڑکاؤ نے ان کی خوراک بھی زہریلی کر دی ہے۔یہ آبی پرندے ان دواؤں کے مہلک اثرات سے ہلاک ہو جاتے ہیں اور جو بچ جائیں وہ افزائش کی طاقت سے محروم رہتے ہیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان سے آگے بھارتی صوبہ راجھستان اور گجرات کی جھیلیں اور تالاب ان آبی پرندوں کو خوب راس آچکے ہیں۔جہاں ادویات کا یوں بے تحاشا چھڑکاؤ کیا جاتا ہے نہ غیر قانونی شکار کا خطرہ موجود ہے۔
جنگلی حیات کے حسن اور تنوع کے لحاظ سے پاکستان دنیا بھر میں مشہور ہے۔اس حسین ملک میں جنگل،دریا،پہاڑ.....سبھی کچھ ہے،چاہے وہ بلوچستان ہو کہ جہاں گوادرکے نیلے ساحل اور قلّات کی اونچی چوٹیاں ہیں،پنجاب کے میلوں پھیلے کھیتوں کے سلسلے اور گلیات کے نظارے ہوں،خیبر پختونخواہ کی برف پوش چوٹیاں ہوں یا سندھ کے سنگھار میں اضافہ کرتے جنگلات،مٹھی بھرلوگوں کے شوق کی خاطران سب کی تباہی و بر بادی کسی محب وطن پاکستانی کو منظور نہیں،لہٰذا یہ ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ہم میں سے ہر شہری جنگلی حیات کے تحفظ اور بقا کو یقینی بنانے کے لئے اپنا فرض ادا کرے۔
------------------------------------------------------------
موسمیاتی تبدیلی سے ماحول اور معیشت خطرے میں۔۔۔!



اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ انسان نے اپنی عقل ودانش کو استعمال کرتے ہوئے ترقی کی وہ منازل طے کرلی ہیں ، کہ جن کے بارے میں آج سے ہزاروں سال پہلے کے انسان سوچ بھی نہیں سکتے تھے مگر ستاروں پر کمندیں ڈالنے اور سیکنڈوں میں دنیا کی تمام معلومات تک انگلی کے ایک اشارے پر رسائی حاصل کرنے والا انسان قدرت کے رازوں کو اتنی ترقی کے باوجوداس انداز سے نہیں جان سکاجس کا وہ دعویٰ کرتا نظرآتا ہے تمام تر کوششوں اور جدیدترین آلات بنانے کے باوجود ابھی تک موسموں میں ہونے والی تبدیلیوں اور ان کے اثرات کے بارے میں معاملہ پیشنگوئیوں سے آگے بڑھتا نظرنہیںآتا۔ قدرتی آفات کب آئیں گی اورکتنانقصان کرینگی؟یہ ایک سوال ہے جس کا جواب آج بھی کسی کے بس کی بات نہیں ۔
انسان نے قانون اورقدرت کی خلاف ورزیاں کرتے ہوئے فطرت کو تبدیل کرنے کی جو کوششیں کی ہیں ان کے اثرات تیزی سے سامنے آرہے ہیں ہم روزبر وز ترقی کی منازل طے کرتے جارہے ہیں مگر ساتھ ساتھ اپنی زندگی کو اجیرن بھی بناتے جارہے ہیں ۔ انسانی آبادی میں بے پناہ اضافے ، چرند پرند کی تیزی سے ختم ہوتی ہوئی نسلیں ، درختوں کی کٹائی اور جنگلات میں کمی ، کوئلے، تیل، قدرتی گیسوں کا بے دریغ استعمال، کمرے اور دفاتر کو ٹھنڈاکرنے والی مشینوں کی بھرمار کرۂ ارض کے غم وغصہ میں روزبروز اضافے کا سبب بن رہی ہے ۔ 
گلوبل وارمنگ کی کئی وجوہات میں سے زیادہ تر وہی ہیں جوکہ انسان کی اپنی پیداکردہ ہیں ۔جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ بجلی کی پیداوار کو پورا کرنے کے لیے ہم تیل یا گیس جلاتے ہیں اور تیل کا استعمال کاروں اور بسوں میں بھی ہوتاہے تو نتیجتاً کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس فضامیں جاتی ہے. یہ گیس سورج کی ان کرنوں کو واپس خلاء میں جانے سے روکتی ہے۔ جوکہ زمین سے ٹکرا کر یا پانی سے منعکس ہوکرواپس خلاء میں جاتی ہیں جس کی وجہ سے گلوبل وارمنگ یا زمینی تپش میں اضافہ ہورہا ہے ۔
دوسری بڑی وجہ جوگلوبل وارمنگ کی میتھین گیس ہے چاول کی کاشت کے دوران میتھین گیس کا بہت زیادہ اخراج ہوتاہے ۔یہ گیس بھی کاربن ڈائی آکسائیڈ کی طرح اپنا کردار اداکرتی ہے، ذرعی سائنسدان چاول کی کاشت کے ایسے طریقوں کے کامیاب تجربات کررہے ہیں جن سے میتھین کا اخراج کم کیا جاسکتاہے کسانوں کو ایسے طریقے استعمال کرنے پر مائل کرنا اہم ہے ۔ 
تیسری وجہ جو گلوبل وارمنگ کی ہے وہ زیادہ سے زیادہ آبی بخارات کا فضا میں جانا ہے ۔زمین کا درجہ حرارت بڑھنے کی وجہ سے سمندروں، دریاوں اور گلیشئر کا پانی فضا میں آبی بخارات کی شکل میں اُڑجاتا ہے اور ا س طرح ناقابل استعمال کرنیں خلاء میں نہیں جاسکتی اور زمین کا درجہ حرارت بڑھتا رہتا ہے اور آج کل زمین پر درجہ حرارت بڑ ھنے کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے۔
گلوبل وارمنگ کی آخری وجہ درختوں کا کاٹنا ہے زیادہ سے زیادہ درخت کاٹنے سے فضا میں موجود آکسیجن کی مقدار کم اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار زیادہ ہوجاتی ہے۔ کیونکہ درخت کاربن ڈائی آکسائیڈ کو اپنی خوراک بنانے کے لیے استعمال کرتے ہیں اگردرخت کاٹ دیئے جائیں تو فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ زیادہ ہوجاتی ہے اور گلوبل وارمنگ میں اضافے کاسبب بنتی ہے۔
کرۂ ہوائی میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بڑھتی ہوئی مقدار کے سبب عالمی درجہ حرارت میں اضاٖفہ ہورہا ہے۔ اس مظہر کو عالمی گرماؤ یا گلوبل وارمنگ کہا جاتا ہے ۔زمین کی درجہ حرارت میں بلندی کا یہ عمل یوں تو زمانہ قدیم سے جاری ہے ،لیکن اس کی رفتار میں اضافہ گزشتہ صدی میں صنعتی سرگرمیاں بڑھنے سے ہوا ۔ صنعتوں میں پیدواری عمل کے دوران رکازی ایندھن (فوسل فیول) کے استعمال سے بڑے پیمانے پر اس ماحول دشمن گیس کا اخراج ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں بھی فضا میں اس گیس کا حجم مسلسل وسیع کررہا ہے۔ گلوبل وارمنگ گزشتہ دو عشروں سے عالمی اشو بنا ہوا ہے لیکن اس پر قابو پانے کے ضمن میں اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے ۔ تمام ممالک کے نمائندے سال میں ایک بار گلوبل وارمنگ پر غورکرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں لیکن ان اجلاسوں کا اب تک کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوسکا ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ طاقت ور ممالک اپنی صنعتی سرگرمیاں محدود کرنے کے لیے تیارنہیں کیونکہ اس طرح ان کی صنعتی ترقی متاثر ہوگی ۔ 
بہت سی قدرتی آفات کی صورت میں نازل ہونے والی آزمائشوں کو تو روکا نہیں جا سکتا مگر ان کے اثرات اور نقصانات کو کم از کم کیا جاسکتاہے، اور یہی گڈگورننس کی پہچان ہوتی ہے، ان آزمائشوں میں ’گلوبل وارمنگ‘ یعنی ارضی تمازت میں اضافہ بھی شامل ہے جوہماری آئندہ کی آزمائشوں میں شامل ہوگی۔
گلوبل وارمنگ کا بنیادی فیکٹر کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں بہت زیادہ اضافہ ہوناہے اور یہ بہت زیادہ اضافہ پچھلی دوصدیوں کے سرمائیداری نظام کی صنعت کاری کے سرمایہ داری، منافع بازی اور مسابقت کی جنگ اور منڈیوں پر قبضے کی لڑائیوں کا کبھی نا ختم ہونے والا سلسلہ ہے جس نے سلفر ، نائٹروجن اور کاربن گیس کے اشتراک کے ذریعے سانس لینا مشکل کردیا ہے ۔
ماحولیاتی سائنس دانوں کے مطابق صنعتی دور کے ۵۰ سالوں میں ۱۷۵۰ سے ۱۸۰۰ سے قبل گلوبل وارمنگ میں تقریباًایک ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوا تھا مگر بیسوی صدی کے وسط تک اوسط درجہ حرارت میں ساڑھے چار ڈگری سے بھی زیادہ اضافہ ہوا ہے ، ایک اندازے کے مطابق ہر سال 40ارب ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ صنعتوں اور ٹرانسپورٹ میں استعمال ہونے والے فوسل فیولز جلا کر فضامیں چھوڑی جاتی ہے اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو ۲۰۵۰ تک فضا میں کاربن ڈا ئی آکسائیڈ کی مقدار دگنی ہو سکتی ہے جس سے یہ اندیشہ ہوگا کہ زمیں پر زندگی کا وجودممکن نہیں رہے گا۔ 
انیسویں اور بیسویں صدی میں بالترتیب زرعی اور صنعتی انقلاب آ ئے ، زرعی انقلاب آیا تو ہم نے جنگلات ختم کردیئے ملک کے رقبے کے لحاظ سے جنگلات کی تعداد بہت ہی کم ہے پاکستان کے کم ازکم ۱۰ فیصد رقبے پر جنگلات ہونا ضروری تھے۔ اسی طرح جب صنعتی انقلاب آیا
اور جا بہ جا فیکٹریاں قائم ہوئیں تو صنعتوں کی قیام کی وجہ سے نہ صرف لوگوں کو ملازمتوں کے مواقع ملے بلکہ شہری آبادی میں بھی اضافہ ہوا یعنی صنعتی انقلاب کی وجہ سے لوگوں کی شہروں کی طرف ہجرت ہوئی اور درختوں اور جنگلات کو کاٹ کر وہاں انسانو ں کو بسایا گیا صنعتی فاضل مادوں اور بڑھتی ہوئی انسانی آبادی کی وجہ سے پانی آلودہ اور مضرصحت ہورہا ہے ۔ 
ا ب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ صنعتوں کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلی کیسے واقع ہوئی تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان صنعتوں سے خارج ہونیوالی گرین ہاوس گیسز کی وجہ سے سورج کے گرد موجود اوزون تہہ کو نقصان پہنچا نتیجتاً سورج کی انفراریڈ شعاعیں براہ راست اور زیادہ شدت کے ساتھ زمین پر پہنچنے لگیں پھراوزون تہہ میں پڑنے والا شگاف بتدریج شمالی و جنوبی قطب پر پھیلتا چلا گیا اور اس کے نتیجہ میں زمین کے حدت میں اضافہ ہوا ہے اس عالمی حدت میں اضافے کی وجہ سے ہمارے گلیشیئرز پگھلنے لگے اور سطح سمندر میں اضافہ ہونے لگا نیز زرعی اراضی سمندر برد ہونے لگی ۔ 
دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کی وجہ سے پاکستان کے موسم اور ماحول میں بھی ریکارڈ تبدیلی آرہی ہے ایک سروے کے مطابق، پاکستان دنیا کے ان بارہ ممالک میں شامل ہے جہا ں سب سے زیادہ موسمیاتی تبدیلیاں وقوع پذیر ہورہی ہیں، موسمیاتی تبدیلی سے دنیا کے سب سے زیادہ متاثر ممالک میں پاکستان کا تیسرا نمبر ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے پیشِ نظر پاکستان میں اسمارٹ ایگریکلچر متعارف کروانے کی ضرورت ہے ۔سورج مکھی کی فصل پانی کی کمی کا سامنا کرسکتی ہے اور موسمیاتی تبدیلی کو اپنانے کے لئے مثالی ہے ۔اسی طرح بنجرو بیکار زمینوں میں زیتون کی کاشت کامیابی کی داستان بن چکی ہے موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ پاکستان میں ایک زبردست توڑ سنہرے ریشے والی فصل سیسل کی کاشت سے کیا جا سکتا ہے ۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے پیشِ نظر کسانوں نے اپنی فصلیں دو سے تین ہفتے تاخیر سے کاشت کرنا شروع کرد یں ہیں عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق ، موسمیاتی تبدیلی سے دنیا کو پانچ بڑے خطرات کا سامنا ہے جن میں قحط ، سیلا ب، سمندری اور برفانی طوفان، سطح سمندر کی تبدیلی اور ذرعی پیدوار میں کمی شامل ہیں موسمیاتی تبدیلیوں کا جائزہ لینے والے ماہرین کا یہ خیال بھی ہے کہ یہ ایک ٹائم بم ہے اور اس کا سامنا کرنے والے ہر ملک کو احتیاطی تدابیر اختیار کر لینی چا ہئیں پاکستان میں ہونے والی شدید بارشیں ، سیلاب اور زلزلوں کو بھی اسی تبدیلی کا شاخسانہ قرار دیا جارہا ہے ۔ آج کے دور میں دنیا کو جن چیلنجز کا سامنا ہے ان میں موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنا بھی ایک اہم ترین چیلنج ہے۔



----------------------------------------------- 
بیجوں کی عالمی تجوری
انسان کے لیے مستقبل کی زندگی بہت پریشان کن ہوتی جارہی ہے جسکی وجہ بڑھتی ہوئی آبادی اور بدلتے ہوئے موسم وحا لات ہیں خاص طور پر غذائی اجناس کی کمی کا خدشہ بڑھتا جا رہا ہے اور اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے غذائی اجناس کو محفوظ کرنے کی ضرورت ہے۔
اس کام کا آغاز۲۰۰۸ء میں کیا گیا تھا۔ان بیجوں کو ایسے محفوظ کیا گیا ہے جیسے ان کے لئے وقت ٹھہر گیا ہو۔ان پر بیرونی ماحول کا کوئی اثر نہیں ہو رہا۔یہ باہر ہونی والی تباہ کاریوں، قحط سالی، بیماریوں اور ہر طرح کی جنگ و جدول کے اثرات سے محفوظ ہیں۔عام انسانی آنکھوں سے پوشیدہ بیجوں کے یہ نمونے اور دوسرے نباتات شمالی یورپ کے جنگلات کے پہاڑی سلسلے میں نہایت محفوظ طریقے سے رکھے گئے ہیں،جو مستقبل میں ہونے والی کسی ممکنہ عالمی تباہی کی صورت میں زرعی اور غذائی ضروریات کی بنیادی لائف لائن ثابت ہوں گی۔
ایک اندازے کے مطابق دنیاکی آبادی اس صدی کے اختتام تک ۱۱ بلین تک پہنچ جائے گی جبکہ اس کے لئے خوراک کی فراہمی کے لئے اتنے وسائل اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکیں گے اگر ان کے لئے پہلے سے پیش بندی نہ کرلی جائے۔ ظاہر ہے کہ اتنی بڑی آبادی کے لئے خوراک کی فراہمی کسانوں اور غذائی اجناس بنانے والے اداروں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنے کا امکان واضح ہے اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے اور وقتاًفوقتاً پیدا ہونے والی بیماریوں اور دیگر تباہ کاریوں سے تباہ ہونے والی فصلوں کو دیکھتے ہوئے عالمی کمیونٹی نے مستقبل میں انسانیت کی بقا کے لئے اہم اقدام کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جس کے نتیجے میں ناروے اور نارتھ پول کے درمیان واقع جزیرے کے پہاڑوں میں ایک زیرزمین گہری تجوری بنانے کا فیصلہ کیاگیا جسے بیجوں کی عالمی تجوریGlobal seed vault))کا نام دیا گیا اس تجوری میں سب سے پہلے کینیا سے تعلق رکھنے والی ماہر ماحولیات اور نوبل انعام یافتہ آنجہانی ونگاری متھائی نے فروری ۲۰۰۸ء میں چاول کے بیجوں کا ایک ڈبہ محفوظ کیا تھا۔ان کے اس عمل کے اب حوصلہ افزا نتائج آنا شروع ہو گئے ہیں۔
دنیا کی اس منفرد تجوری میں مختلف ملکوں کی حکومتوں، نجی اداروں،این جی اوز اور عوامی سطح پراسی طرح دنیا بھر کے دیگر ذرائع سے جمع کئے جانے والے بیج محفوظ کئے جا رہے ہیں۔اس تجوری کا اصل مقصد ہر اس پودے کے بیجوں کومحفوظ کرنا ہے جن کے پودے اور پھل خوراک کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں۔اس تجوری کو بنانے میں تین اداروں(ناروے کی حکومت،فصلوں کو محفوظ بنانے والا ٹرسٹ اور نورڈک جنرل بینک) کا اشتراک شامل ہے۔اس تجوری کے شراکت داراو ر گلوبل ڈائیورسٹی کورپ ٹرسٹ کے پارٹنر شپ اینڈ کمیونیکیشن آفیسر برائن لینوف کا کہنا ہے کہ اس تجوری میں محفوظ کئے جانے والے بیجوں کی بیک اپ ان ہی لوگوں کی ملکیت ہیں جو انہیں یہاں جمع کرارہے ہیں۔
اس وقت عالمی سطح پر۱۷۰۰ سے زیادہ جین بینک غذائی اجناس کی فصلوں کے نمونے محفوظ کر رہے ہیں،ان میں سے زیادہ تر کو نا صرف قدرتی آفات کا بلکہ ان میں لڑی جانے والی جنگوں اور اس میں جلنے والے بارود سے پیدا ہونے والے نقصان کا بھی سامنا ہے۔ ایسے میں جمع کئے جانے والے بیجوں کے اہم ذخیرے تباہ ہو جانے کا شدید خدشہ موجود ہے۔اس کی سب سے بڑی مثال عراق میں ابو غریب جیل کے قریب واقع بیجوں کی ایک تجوری ہے،جو ۲۰۰۳ء میں امریکی حملوں میں تباہ ہو گئی تھی،اسی طرح افغانستان میں محفوظ کئے جانے والا ذخیرہ لوٹ لیا گیا تھا جو بعد میں ضائع ہو گیا۔
بیجوں کی اس عالمی تجوری میں ۵.۴ ملین نمونے محفوظ کرنے کی گنجائش موجود ہے جن میں سے ہر نمونے کے ۵۰۰ بیج محفوظ کئے جا سکیں گے۔یعنی مجموعی طور پر اس تجوری میں ۲۵.۲ بلین بیجوں کو محفوظ کیا جا سکتا ہے۔تا حال اس میں تقریباً تمام ممالک کے نمونے محفوظ ہیں جن میں فرانس، چین، جا پان بھی شامل ہیں،جبکہ توقع ہے کہ مستقبل قریب میں بھارت اور برازیل بھی اس سلسلے میں اہم کردار ادا کریں گے۔
فصلوں کو محفوظ کرنے کیلئے اس ٹرسٹ نے اپنا بیجوں کی تجوری بنانے کا پانچ سالہ پروجیکٹ ۲۰۱۲ء میں مکمل کیا تھا اور اب تک اس میں ۸۰۰۰۰ ایسی اقسام کی فصلوں کو محفوظ کیا جا چکا ہے جن کے معدوم ہو جانے کا خدشہ پیدا ہو گیا تھا یہ اب تک اپنی نوعیت کا سب سے بڑا آپریشن ہے۔
اس عالمی تجوری میں خاص طور پر امریکا اور ایشیا سے منفرد اقسام کے بیجوں کے نمونے محفوظ کئے گئے ہیں جن میں مکئی،چاول اور گندم خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔جبکہ یورپ اور جنوبی امریکا سے بند گوبھی،جو اورآلو کے بیجوں کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔یہ وہ فصلیں ہیں جن کا دنیا بھر میں سب سے زیادہ استعمال ہوتا ہے اور ایک اندازے کے مطابق مجموعی طور پر ان کی ۴.۱ ملین اقسام پائی جاتی ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس منفرد عالمی تجوری کے لئے سوالبارڈ کے علاقے کا انتخاب کیوں کیا گیا؟بنیادی طور پر یہ جغرافیائی حقیقت ہے کہ یہ محل وقوع کے اعتبار سے ہر طرح متوازن علاقہ ہے جو اس طرح کی محفوظ عمارت بنانے کے لئے آئیڈل ہے یہاں کا سرد ماحول زیر زمین کولڈ اسٹوریج بنانے کے لئے بہترین سمجھا جاتا ہے ۔اس کے اطراف میں موجود پتھریلا علاقہ عمارت کو تابکاری سے محفوظ رکھتا ہے۔بیجوں کی اس عالمی تجوری کا ڈھا نچہ بہت اچھا ہے اسے توانائی فراہم کرنے کے لئے قابل بھروسہ ذرائع استعمال کئے جا رہے ہیں۔اسے روزانہ فلائٹ کے ذریعے ایندھن پہنچانے کے ساتھ مقامی طور پر بھی کوئلے کی فراہمی جاری رہتی ہے یہ تجوری پہاڑ میں ۱۲۰ میٹر گہرائی میں واقع ہے جس کی وجہ سے یہ قدرتی طور پر ٹھنڈی رہتی ہے اور اگر کسی وجہ سے اس کا برقی اور مکینیکل کولنگ سسٹم کام چھوڑ دے تو بھی تجوری میں رکھے ہوئے ذخیرے کو نقصان پہنچنے کے بہت کم امکانات ہیں یہ جگہ سطح سمندر سے ۱۳۰ میٹر کی بلندی پر ہے اور اس میں موجود یہ منفرد تجوری بیرونی طور پر ماحول میں ہونے والی تبدیلیوں کے اثرات سے محفوظ ہے۔بہت سوچ بچار کے بعد سوالبارڈ کے علاقے کا انتخاب کیا گیا جہاں ناروے نے ۹ ملین امریکی ڈالرز کی لاگت سے یہ تجوری تعمیر کی۔
تجوری کی عمارت کے صدر دروازے سے تجوری کے پورٹل تک کا فاصلہ ۹.۱۴۵ میٹرز ہے جہاں ہر تجوری کی چوڑائی ۵.۹ سے ۱۰ میٹرز تک،لمبائی ۲۷ میٹرز جبکہ اونچائی ۶ میٹرز ہے۔اس تجوری پر سالانہ ۳۰۰۰۰۰ڈالرز کے اخراجات آ رہے ہیں ۔سال کے ۳۶۵ دن یہ تجوری مقفل رہتی ہے اسے صرف اسی وقت کھولا جاتا ہے جب اس میں کوئی نیا ذخیرہ محفوظ کرنے کے لئے لیا جاتا ہے۔عام طور پر ایسا سال میں صرف تین بار ہوتا ہے کسی بھی ہنگامی صورت حال میں برقی توانائی کی فراہمی متاثر ہونے کی وجہ سے نمٹنے کے لئے یہاں بیک اپ جنریٹر موجود ہیں جو تجوری کا درجہ حرارت منفی سات ڈگری سینٹی گریڈ تک برقرار رکھ سکتا ہے جبکہ عام حالات میں یہاں کا درجہ حرارت منفی ۱۸ ڈگری سینٹی گریڈ رہتا ہے۔یہاں کا کولنگ سسٹم نمی اور درجہ حرارت کو اس طرح برقرار رکھتا ہے کہ یہاں پر صدیوں تک بیجوں کو محفوظ کیا جا سکتا ہے۔تاہم کچھ ایسی فصلیں بھی ہیں جنہیں اس تجوری میں محفوظ نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ اس کے لئے مختلف نوعیت کا ماحول درکار ہیان فصلوں میں سیب اور کیلا سب سے زیادہ قابل ذکر ہیں۔
اس تجوری اور اس میں رکھے ہوئے بیجوں کے خزانے کو محفوظ رکھنے کے لئے یہاں پر ڈیجیٹل کیمروں،درجہ حرارت مانیٹر کرنے والے آلات اور دیگر ڈیوائسز اور ٹیکنالوجی سے لیس سسٹم نصب کیا گیا ہے جس کے ذریعے نگرانی کرتے ہوئے محفوظ بیجوں کو صدیوں تک قابل استعمال رکھا جا سکتا ہے۔
اس بڑی سی عمارت میں وئیر ہاؤس کی طرح کے شیلفز لگے ہوئے ہیں ،جن پر حروف تہجی کے اعتبار سے ڈبوں میں بند بیج رکھے جاتے ہیں۔ان ڈبوں کو یہاں محفوظ کرنے کا طریقہ بہت سخت رکھا گیا ہے،یہاں بیج اس صورت میں رکھے جاتے ہیں جب انہیں کوئی دوسرا ملک ڈبے میں سر بمہر کر کے بھیجتا ہے ۔ان ڈبوں کو اسی طرح تجوری میں حروف تہجی کے اعتبار سے رکھ دیا جاتا ہے اور انہیں صرف وہی دوبارہ کھول سکتا ہے جس نے انہیں جمع کرایا ہو ۔تاہم اگر نمی یا درجہ حرارت میں تبدیلی کی وجہ سے بیجوں کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو تو ماہرین کی ٹیم اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے موجود ہے۔
ماہرین نے اس بات کا بہت پہلے ہی اندازہ لگا لیا تھا کہ جس تناسب سے دنیا کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے ،اس کے مقابلے میں خوارک کی فراہمی کے ذرائع بہت کم ہیں اور اگر یہی حالات اسی طرح قائم رہتے ہیں تو وہ وقت دور نہیں جب دنیا بھر میں غذائی اجناس کی شدید قلت ہو جائے گی۔اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے ابھی سے منصوبہ بندی کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ایسے میں سوالبارڈ کی طرح کی بیجوں کی عالمی تجوری یقینابہت اہمیت کی حامل ہے۔ 
------------------------------------------------------------------ 
قدیم شاہراہِ ریشم کا نیا سفر
۱۵ فروری ۲۰۱۶ء کو ایک ٹرین چین کے مشرقی صوبے،ژی جیانگ سے ۵۰۰،۹ کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے بہ راستہ قازقستان و ترکمانستان،ایران کے دارالحکومت،تہران کے ریلوے اسٹیشن پہنچی۔اس کے ۳۲ کنٹینرز میں چینی سا مان موجود تھا۔قدیم شاہراہ ریشم پر نئی تعمیر ہونے والی ریلوے لائن پراس مال گاڑی نے یہ فاصلہ ۱۴ روز میں طے کیا۔اس تاریخی موقع پر اعلیٰ ایرانی حکام کے علاوہ ایران میں موجود چینی سفیر بھی ریلوے اسٹیشن پر منعقد تقریب میں موجود تھے۔اس موقعے پر ایرانی ریلوے کمپنی کے سر براہ،محسن آقائی کا کہنا تھا کہ’’چین کی بندرگاہ سے ایرانی بندرگاہ،بندر گاہ عباس تک کے سفرکے مقابلے میں ٹرین کے سفر کا دورانیہ ۳۰ روز کم ہے اور ہم اس ٹرین کا روٹ مستقبل قریب میں یورپ تک لے جائیں گے،جس سے ایران کی آمدنی میں اضافہ ہو گا۔فی الحال یہ ٹرین مہینے میں ایک بار چلے گی اور بعد ازاں، ضرورت کے مطابق اس کی آمدورفت میں اضافہ کیا جائے گا۔عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق،اس وقت ایران کی مجموعی بیرونی تجارت میں ایک تہائی سے زیادہ حصّہ چین کا ہے۔چین ایرانی تیل کا سب سے بڑا خریدار ہے۔
چین کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس نے ہمیشہ جنگوں کی بجائے صنعت و تجارت پر زیادہ توجہ دی ۔چین کے حکم رانوں نے آج سے تقریباً ۲۲۰۰ برس قبل شاہراہ ریشم سے ایران ،شام،صومالیہ ،ہندوستان ،یونان اور روم تک تجارت کی۔اس شاہراہ کا نام ریشم اس لئے پڑا کہ چین ہی نے ریشم دریافت کیا تھا اور وہ اس سے خوبصورت ملبوسات تیار کرتا تھااور صدیوں تک چین نے اس پر اپنی اجارہ داری قائم رکھی۔اپنی تجارتی راہ داری کو محفوظ رکھنے، سرحدوں کو تا تاریوں اور منگولوں کے حملوں سے بچانے اور ریشم کے راز کو پوری دنیا سے پوشیدہ رکھنے کے لئے ۲۲۰ قبل مسیح میں بان سلطنت نے عظیم دیوارِ چین کی تعمیر شروع کی،جو وقفے وقفے سے جاری رہی اور اس کا بڑا حصّہ پانچویں صدی سے آٹھویں صدی کے درمیان مکمل ہوا۔اُس وقت تک دنیا بھر کے بادشاہوں اور امراء کے لئے صرف چین سے ہی ریشم جاتا تھا۔چینی حکم رانوں کے لئے دیوار چین اس لئے بھی اہم تھی کہ چین میں باہر سے داخل ہونے والے ہر شخص پر نظر رکھی جاتی کہ کہیں وہ ریشم کا راز چین سے باہر نہ لے جائے اور صدیوں تک چینی اس میں کامیاب بھی رہے۔یاد رہے کہ دیوار چین چاند سے نظر آنے والی انسانی ساختہ واحد شے ہے۔اس سرحدی دیوار کی مجموعی لمبائی ۸۸۵۰ کلو میٹر ہے جب کہ ذیلی دیواروں سمیت اس کی کل لمبائی ۲۱۱۹۶ کلو میٹر بنتی ہے۔لیکن پھر یورپ سے دو افراد پادریوں کے روپ میں چین آئے اور انھوں نے برسوں چین میں قیام کیا۔بہ ظاہر وہ عیسائیت کی تبلیغ کرتے تھے،لیکن واپس جاتے ہوئے وہ ریشم کے کیڑے کو اپنی عصا میں چھپا کر لے گئے اور پھر ریشم بنانے کا راز پوری دنیا بھی جان گئی۔
آٹھویں صدی عیسوی کے بعدمسلمانوں کو عروج حاصل ہوا اور وہ دنیا کی تجارت پر چھانے لگے۔لیکن شاہراہ ریشم کی اہمیت پھر بھی کم نہ ہوئی۔جب سولہویں صدی عیسوی میں یورپی اقوام کی جانب سے نو آبادیاتی نظام کا آغاز ہوا تو رفتہ رفتہ ایشیا اور افریقا کے تمام ممالک ان مغربی اقوام کے غلام بنتے گئے،جبکہ امریکا،کینیڈا اور آسٹریلیا پر بھی انہی کی حکمرانی قائم ہو گئی۔۱۸۳۰ء میں برطانیہ میں پہلی ٹرین چلی تھی اور پھر اس کی افادیت فرانس اور امریکا کو خانہ جنگی کے دوران معلوم ہو گئی تھی،لیکن پہلی جنگ عظیم کے دوران ریلوے کی اہمیت میں یک دم اضافہ ہوا اور پھر اس کے فوراً بعد ہی ریلوے کی اہمیت میں کمی آنے لگی،لیکن آج ایک سو سال بعد ایک مرتبہ پھر ریلوے کی اہمیت پوری دنیا میں بڑھتی جا رہی ہے۔
اگر چہ ریلوے لائنز کو زیر زمین بچھانے کا عمل دوسری جنگ عظیم سے قبل ہی شروع ہو گیا تھا،لیکن اس کے بعد ترقّی یافتہ ممالک نے اس طرز تعمیر کو ریلوے کے حوالے سے اصول بنا لیا اور اس طرح روڈ ٹریفک کی وجہ سے پیدا ہونے والی فضائی اور شور کی آلودگی پر کنٹرول کر لیا گیا۔اس کے بعد جاپان نے نہایت کامیابی سے ٹرینوں کی رفتار میں اضافہ شروع کیا اور پھر الیکٹرک ریلوے انجنز کی وجہ سے دھویں سے بھی نجات مل گئی۔بد قسمتی سے جب پوری دنیا بھر میں ریلوے کا شعبہ ترقی کر رہا تھا،پاکستان میں اس شعبے میں زوال آگیا۔۱۹۷۰ء کی دہائی سے پاکستان ریلوے کا خسارہ بڑھتا ہی چلا گیا،حالاں کہ جنوبی ایشیا میں پاکستان وہ پہلا ملک تھا جس نے الیکٹرک ٹرین کا آغاز کیا تھااور لاہور سے خانیوال تک برقی ٹرین چلائی گئی تھی۔
اقتصادی اور عسکری اعتبار سے پاکستان کی اسٹرٹیجک پوزیشن ایران،بھارت، اور افغانستان سے کہیں زیادہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ چین اور امریکا دونوں ہی پاکستان کو اپنا اسٹرٹیجک پارٹنر رکھنا چاہتے ہیں۔پاکستان کی خارجہ پالیسی میں چین کے حوالے سے اس وقت تبدیلی آئی ،جب ۱۹۶۲ء میں چین، بھارت تنازعات کی بنیاد پر ان دونوں ممالک میں سرحدی جھڑپیں ہوئیں۔اس موقعے پر پاکستان اور چین کے تعلقات بہتر ہو گئے اور اس کے بعد پاکستان نے اپنی خارجہ پالیسی کو پاک،امریکا تعلقات کے اعتبار سے قدرے متوازن رکھنے کی کوشش کی،جس کو بھارت کی شہ پر امریکا نے ابتدائی برسوں میں شکوک وشبہات کی نظر سے دیکھا،لیکن جب ایوب خان کے دورِ حکومت ہی میں پاکستان نے امریکا اور چین کے درمیان تعلقات کی بہتری کے لئے مثبت کردار ادا کیا اوع اس وقت کے وزیر خارجہ بھٹو نے امریکی حکام کو اس بات پر قائل کیا کہ چین،امریکا تعلقات امریکا کے مفاد کے ساتھ عالمی امن اور ترقی کے لئے بھی بہتر ثابت ہوں گے،تو پھر ۱۹۷۱ء میں امریکا کے وزیر خارجہ کسنجر نے پاکستان ہی سے چین کا خفیہ دورہ بھی کیا۔اب صورتحال یہ ہے کہ چین گزشتہ ۵۰ برسوں میں کسی بڑے عالمی تنازعے میں اُلجھے بغیر تیز رفتاری سے ترقی کر کے دنیا کی ایک اہم معیشت بن گیا ہے اور اب وہ اپنی حیثیت کو ہمیشہ کے لئے مستحکم کرنا چاہتا ہے۔
چین کے اقتصادی استحکام کے لئے ضروری ہے کہ اس کے کارخانوں تک ایندھن اور خام مال کی ترسیل بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رہے اور پھر اس کی مصنوعات بھی آسانی سے کم لاگت اور کم وقت میں دنیا کے ممالک تک پہنچتی رہیں اس اعتبار سے پاکستان چین کے لئے اہم ہے۔گوادر کی بندرگاہ کے بعداب سی پیک یعنی چین،پاکستان اقتصادی راہ داری منصوبے کے تحت ریلوے کی اہمیت کو بھی چین نے تسلیم کیا ہے اور کاشغر سے گوادر تک ریلوے منصوبہ بھی اس کی نظر میں اتنا ہی اہم ہے،جتنی کہ شاہراہیں ۔
-------------------------------------------------------------------------- 
سیاحوں کی جنت......وادیِ کاغان
بیش بہا معدنیات اور جنگلات کی دولت سے مالا مال،صوبہ خیبر پختون خواہ کے شمالی علاقہ جات کے تقریباً تمام ہی مقامات قدرتی مناظر،برف پوش پہاڑوں،گلیشیئرز اور بہتی آبشاروں کا مسکن ہیں۔ان ہی وادیوں میں ایک وادی،وادیِ کاغان بھی ہے،جس کا شمار وہاں کے دل فریب اور پر کشش مقامات میں ہوتا ہے۔یہیں دنیا کی خوبصورت ترین جھیل سیف الملوک کے علاوہ لالہ زار کے دل فریب مناظر پر مشتمل برف پوش پہاڑوں کاوسیع سلسلہ بھی ہے۔اس وادی کا ایک مشہور شہر ،بالا کوٹ اکتوبر2005ء کے تباہ کن زلزلے کے بعد مکمل طور پر تباہ ہو گیا تھا،جسے از سرِنو تعمیر کر کے اس کی اصل تصویر کسی حد تک بحال کر دی گئی ہے۔دوسری طرف ناران،کاغان روڈ کو بھی دوبارہ تعمیر کر کے وسیع کیا گیا ہے۔سیاحوں کی جنت ،وادی کاغان میں برف پوش پہاڑوں اور آب شاروں کے درمیان ۹ چھوٹی بڑی جھیلوں کا شمار دنیا کی حسین ترین جھیلوں میں ہوتا ہے،جن کی خوبصورتی،دلکشی اور مسحور کن فضا کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ان خوش کن مناظر اور دلکش نظاروں سے لطف اندوز ہونے کے لئے ملک بھرہی سے سیاحوں کی ٹولیوں کی ٹولیاں نہیں پہنچتیں،بلکہ بیرونِ ملک سے بھی بڑی تعدادمیں لوگ آتے ہیں۔سیاحوں کے قیام کے لئے خوبصورت ریسٹ ہاؤسسز اور ہوٹلز موجود ہیں۔تاہم،زیادہ تر سیاح ہوٹلزاور مسافر خانوں میں قیام کے بجائے ٹینٹوں اور خیموں پر مبنی’’ٹینٹ ویلیج‘‘ میں قیام کو ترجیح دیتے ہیں۔وادی کاغان کی حدود بالا کوٹ کے بعد ہی شروع ہو جا تی ہے اور بالا کوٹ سے وادیِ کا غان تک کا سفر بذریعہ جیپ،کاریا ویگن کیا جا سکتا ہے۔وادی کے صرف پانچ فیصد حصے پر کاشت کاری ہوتی ہے،جن میں پیاز،گندم،مکئی ،چاول،مٹر وغیرہ شامل ہیں۔جب کہ مختلف پھلوں کے باغات بھی جا بجا نظر آتے ہیں۔اس کے علاوہ وادی کے زیادہ تر حصے دیودار،چیڑ ،کیکراور بیارو کھپل سے بھرے پڑے ہیں۔
وادی کاغان کی سب سے اہم اور مرکزی سیاحت کی وادی،وادیِ ناران ہے،جسے وادیِ کاغان کا دل،خوابوں اور پریوں کا سحر انگیزدیس بھی کہا جاتا ہے۔اگر چہ بالا کوٹ سے ناران تک کا راستہ کافی حد تک پکا ہے،لیکن بعض مقامات پر لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہیں۔دریائے کنہار کے سنگ سنگ،بالا کوٹ سے وادی ناران تک کا سفر تقریباً چار گھنٹوں پر محیط ہے۔ناران میں داخل ہوتے ہی برف پوش پہاڑوں اور گلیشیئرز پر نظر پڑتی ہے۔دریائے کنہار پر لکڑی کے پُل بنائے گئے ہیں،جو چھوٹے چھوٹے قصبوں کو ایک دوسرے سے منسلک کرتے ہیں،مقامی باشندوں کے بنائے گئے لکڑی کے ان پُلوں کی مضبوطی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان سے گاڑیاں بھی باآسانی گزر جاتی ہیں۔جھیل سیف الملوک کا گیٹ وے ناران ہی ہے کہ یہیں سے جھیلوں کا آغاز ہو جاتا ہے۔اس کے ایک طرف بابو سر پاس تو دوسری طرف لالہ زارجیسے حسین علاقے ہیں۔مقامی افراد اپنی ضروریات کے لئے فصلیں اگاتے ہیں،تاہم جب سردیوں میں زمین برف سے ڈھک جاتی ہے اور فصل کی پیداوار نا ممکن ہو جاتی ہے،تو ٹراؤٹ مچھلی کا کاروبار عروج پر پہنچ جاتا ہے۔سیاح بھی ٹراؤٹ مچھلی کا شکار کرتے ہیں جس کے لئے خصوصی پرمٹ لینا ضروری ہے۔
وادی ناران کی آب وہوا انتہائی دلکش ہے،سردیوں کا موسم پوری وادی کو برف کی چادر میں چھپا لیتا ہے مگر گرمیوں کا موسم شروع ہوتے ہی برف پگھلنے لگتی ہے تو ہر طرف ہریالی پھیل جاتی ہے۔وادی کا غان کی اصل اہمیت ناران ہی کے سبب ہے کہ سیاحت کی غرض سے وادی کاغان آنے والے زیادہ تر سیاح ناران پہنچنے کے بعد وہیں ڈیرے جما لیتے ہیں کہ یہیں جھیل سیف الملوک،جھیل لولو پت سر،جھیل دودی پت سر اور لا لہ زار جیسے دلفریب مقامات ان کے منتظرہوتے ہیں۔ہر سال ملک بھر،بالخصوص کراچی،لاہور اور پنجاب کے دیگر شہروں سے بھی لاکھوں کی تعداد میں سیاح وادی کاغان اور ناران کا رخ کرتے ہیں اور یہاں ساڑھے دس ہزار فٹ اونچائی پر واقع جھیل سیف الملوک اور لا لہ زار سیاحوں کی توجہ کا خاص مرکز ہیں۔اسی لئے آنے والے ۹۰ فیصد سیاح سب سے پہلے جھیل سیف الملوک ہی کا رخ کرتے ہیں،حالانکہ وادی ناران سے جھیل تک کا سفر انتہائی دشوار گزاراور پیچیدہ ہے۔برف کے گلیشیئرز سے گزرتے وقت جیپوں کی سواری خاصی پر خطر ہو جاتی ہے۔ایسے میں گھوڑے پر سوار ہو کر برف پوش چٹانوں سے گزر کر جھیل تک پہنچنا کسی ایڈونچر سے کم نہیں۔اور پھر جب برف پوش پہاڑوں کے دامن میں برف کی چادر اوڑھے اس جنت نظیر جھیل پر نظر پڑتی ہے تو گویا سیاح ششدررہ جاتے ہیں۔یہاں کا موسم عموماً خوشگوار ہوتا ہے،ٹھنڈی ہوائیں چلتی رہتیں ہیں۔دوسری طرف پہاڑی چوٹیوں کے سنگم پر واقع’’لالہ زار‘‘کے دلکش و دل فریب مناظر دیکھ کر انسان کچھ دیر کے لئے مبہوت سا ہو جا تا ہے

No comments:

Post a Comment