Wednesday 3 April 2019

Fareena Aslam Wirting pieces

Fareena Aslam
2k16/MmC/21
M.A pervious Improve
Investigative report
پرائیویٹ اور غیر قانونی اسکول
ایک خیمہ جس میں ایک طرف سے چند طالبعلم بستہ اٹھائے داخل ہورہے ہیں جبکہ دوسری طرف سے چند گدھے بستہ اٹھائے بائر نکل رہے ہیں. یہ خیمہ ویب پر پاکستان کے تعلیمی نظام کو دیکھتے ہوئے بنایا گیا ایک کارٹون ہے جو کافی مشہور بھی ہورہا ہے اس خیمے کے اوپر لکھا ہے 
"PAKISTAN EDUCATION SYSTEM"
ٖٓپاکستان کو بننے ہوئے ۶۸ ؁ سال ہو چکے ہیں لیکن ہمارا تعلیمی نظام بہت خراب ہے ہمارے طالبعلم ابھی تک دد کشتیوں پر سوار ہیں جن میں سے ایک اردو اور ایک انگریزی ہے ان دو کشتیوں پر سوار ہونے کا نتیجہ یہ ہے کہ نہ تو ہمارے طالب علموں کی اردو اچھی ہے اور نہ ہی انگریزی اسکول زیادہ تر گورنمنٹ کے ماتحت ہیں جہاں ڈنڈوں کے سائے تلے تعلیم دی جاتی ہے جس کی وجہ سے طلباء اسکول جانے میں گھبراتے ہیں اور طرح طرح کے بہانے کرکے چھٹی کو ترجیع دیتے ہیں بہانے بناکر چھٹی کرنے میں کامیاب ہونے کے بعد اسے ٹھنڈی اور سکون کی سانسیں بھرتے ہیں۔ جیسے کسی خوف کا بڑا سایہ ان کے سر سے ہٹا دیا گیا ہو۔ اگر ہم پرائیویٹ اسکول کو دیکھیں تو وہاں جو طلبا میٹرک اور انٹر کے امتحان میں پاس ہوجاتے ہیں وہ اپنے ہی اسکول میں جاکر استاد بن جاتے ہیں اگر نظام تعلیم اسی طرح دن بہ دن خراب ہوتا گیا تو شاید ہی یہ ملک پاکستان کبھی ترقی کر پائیگا کیونکہ یہ قول بہت مشہور ہے۔
طلباء کسی بھی قوم کے مستقبل کا قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں۔
گورنمنٹ اور پرائیویٹ اسکول کی مثال ہم اس طرح دے سکتیے ہیں کہ کچھ دن قبل انٹرنیٹ پر ایک تصویر میں دکھایا جا رہا تھا دو گھروں کو ایک ساتھ دیکھایا جا رہا تھا ۔جس میں تعلیمی نظام صاف واضح ہوگیا۔ایک گھر پرائیویٹ اسکول کے استاد کا تھاجو بلکل ٹوٹا پھوٹا اور بری حالت میں تھا۔جبکہ دوسری جانب ایک گورنمنٹ اسکول کے استاد کا گھر تھا ۔جو بہت ہی عالیشان ہونے کے ساتھ ساتھ ہر سہولت سے بھرپور تھا۔ اس تصویر کو دیکھانے کا مطلب بلکل صاف ہے کہ گورنمنٹ اسکول میں استاد محنت کرنے کو ترجیع نہ دے کر صرف پیسوں پر عیش کرنے کو بڑی بات سمجھتے ہیں جبکہ اس کے برعکس پرائیویٹ اسکولوں کا نطام بلکل مختلف ہے جہاں اساتزہ محنت کر کے اپنی قابلیت کے بلبوتے پر پیسے کماتے ہیں۔یہ پاکستان کے تعلیمی نطام کی ایک چھوٹی سی جھلک ہے اگر اسی طرح پورے نطام پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہاں سب بڑے سے بڑا ہو یا چھوٹے چھوٹا عہدیدار صرف اپنی جیب بھاری کرکے عیش میں لگا ہے۔ان سب کو معصوم بچوں کے مستقبل کی کوئی پرواہ نہیں ہے بچوں کے خراب ہوتے مستقبل کا زمہدار ہے کون؟ اس کا جواب اگر والدین سے لیا جائے تو وہ اساتزہ کا نام لیکر جان چھٹا لیتے ہیں اور اساتزہ سے یہ سوال کیا جائے تو وہ اپنے سربراہوں کا نام لیکر اپنا دامن صاف کر لیتا ہے اور اگر ان سربراہوں سے پوچھا جائے تو وہ سیدھا حکومت کو الزام دے کر خود کو کرپشن مافیہ سے پاک و صاف کر لیتے ہیں اپنی غلطی ماننے کو کوئی تیار ہی نہیں ہے۔۔

غیر قانونی اسکولوں کی وجوہات 249قانون اور اصول وضوابط 249کتابوں کی چھپائی کا عمل249غیر تجربہ کار اساتزہ اور غیر قانونی اسکول ؂وں کی تعداد کے بارے میں اس رپورٹ میں آگے تفصیل سے بتایا گیا ہے۔
------------------------------------------------------------------------------------------------------- 

Fareena Aslam
2k16/MmC/21
M.A pervious Improve
قانون اور اصول وضوابط
ڈائریکٹوریٹ کے ریکورڈ کے مطابق پاکستان میں 1395پرائیویٹ اسکول ہیں ان میں سے تقریبا آدھے اسکول حیدرآباد میں ہیں جس میں ۳۵۱کے قریب اسکول غیر قانونی ہیں جو اب تک رجسٹرڈ نہیں کروائے گئے۔ان اسکولوں کے رجسٹرڈ کروانے کی کیا وجوہات ہیں ۔کیونکہ ہر جگہ کرپٹ مافیہ کام کررہا ہے؟ کیونکہ اس نظام کے خلاف کوئی اقدامات نہیں ہوئے؟

پرائیویٹ اسکول کی میڈم صابرہ سے بات کرنے پر پتہ چلا کہ غیر قانونی اسکولوں کا زیادہ رجحان اس لئے بھی ہوتا ہے کیونکہ ایک اسکول جو رجسٹرڈ ہے دوسرا اسکول اسی کے نام پر اپنے اسکول کے طلباء کے نام آگے دے کر ان کو بورڈ کے امتحانات دلوارہے ہیں اور وہ اسکول جو دوسرے اسکول کی مدد کررہا ہوتا ہے وہ اپنا فائدہ لے لیتا ہے اس طرح ان لوگوں کو اپنے اپنے اسکول رجسٹرڈ کروانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی اس کے علاوہ میڈم صابرہ نے چیک اینڈ بیلینس کے نظام کو خراب بتاتے ہوئے کہا ہے کہ یہاں کوئی دیکھنے والا نہیں ہے جس کی وجہ سے ہر کوئی اپنی من مانی کر رہا ہے .بہت سے قانون اور قواعدوضوابط آئے ہیں لیکن ان پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوا. بس قانون آتے ہیں شور مچتا ہے اور کچھ ونوں میں وہ بھی ختم ہو جاتا ہے مانو جیسے کبھی کوئی قانون پاس ہی نہ ہوا ہو . تو ایسی حالات میں ان قانون پر عمل کرنا تو بہت ہی مشکل ہے۔

صوبائی گورنمنٹ انسپیکشن ڈائریکٹوریٹ اور پرائیویٹ اسکولوں کی رجسٹریشن جنوری ۲۱۰۲ میں حیدرآباد میں قائم کی گئی اور پھر وہ آہستہ آہستہ حیدرآباد کے ۰۱ ضلعوں میں بھی پھیل گئی۔ اسکولوں میں سال میں ایک دفعہ انسپیکشن ٹیم آتی ہیں چاہے وہ گورمینٹ اسکول ہوں یا پرائیویٹ ۔اور پھر دہ آفس میں بیٹھ کر چند پیسے لے کر اور چائے بسکٹ کھا کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنے فرائض انجام دے دئییاور اٹھ کر چلے جانا پسند کرتے ہیں۔

۱۰۰۲ اور ۵۰۰۲ میں پرائیوٹ اسکول سندھ پرائیوٹ ایجوکیشنل ادارے میں تبدیل ہوگئے اور ۳۱۰۲ میں ایک ایکٹ پاس کیا گیا کہ بچوں کو مفت اور ضروری تعلیم دلانا ان کا حق ہے۔ سندھ اسمبلی میں فروری میں ایک ایکٹ پاس کیا گیا کہ اگر کوئی بندہ بغیر رجسٹریشن کے کوئی اسکول چلائے گا تو اس پر پانچ لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا جاہے گا اور جیل کی سزا دی جائے گی یا پھر یہ دونوں سزا بھی دی جا سکتی ہیں. لیکن اس کے بعد بھی اب تک کوئی عمل درآمد نظر نہیں آیا۔

نئے اسکولوں کو کچھ مہینے دئیے جانے ہیں رجسٹریشن کے لیے اگر وہ پھر بھی رجسٹریشن نہیں کرواتے تو ان پر جرمانہ لگتا ہے.ان غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ہے جو بھی قانون آئے ہیں ان پر عمل کتنا کیا گیا؟
گورنمنٹ بوائز ہائی اسکول کے اسسٹینٹ کا کہنا تھا کہ یہ سب قانون دماغی فطور ہیں کیونکہ ان پر عمل تو کوئی کرتا نہیں ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے مطلب اگر کوئی قانون پر پابندی کرتا بھی ہے تو دوسروں کو دیکھ کر وہ بھی عمل کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ گائیڈ کے خلاف کہتے ہوئے کہا کہ گائیڈ بند ہوجانی چاہئیں تاکہ طلباء کا رجحان نقل کی طرف سے ہٹ کر محنت کی طرف آئے۔

قانون اور قواعدوضوابط کے اصول کے لئے بہت سے ایجوکیشن اداروں پر چھاپے بھی مارے گئے لیکن ان چھاپوں کے بعد بھی ان کو کوئی سزا نہیں دی گئی۔جس کی وجہ سے ایسے لوگوں کو برائی کا حوصلہ ملا اور آگے بڑھ چڑھ کر اور غلط راستے اختیار کئے۔

مزید پاکستان کا یہی حال رہا تو قوم کو تاریکی کی طرف جانے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ طلبہ جو اس قوم کا قیمتی اثاثہ ہیں ان کے مستقبل کو مزاق سمجھ رکھا ہے۔
Fareena Aslam
------------------------------------------------------------------------------------------------------- 

Fareena Aslam
2k16/MmC/21
M.A pervious Improve
Profile
ڈاکٹر لیاقت راجپوت (محنت کے دم پر اپنا لوہا منوایا)ڈاکٹر لیاقت راجپوت ۳ جنوری ۱۹۵۳ کو ٹنڈوالہیارمیں پیدا ہوئے۔بچپن سے ہی تعلیم کے شوقین تھے ابتدائی تعلیم دارالعلوم پرائمری اسکول ٹنڈوالہیار سے حاصل کی۔اعلی تعلیم کے لئے میونسپل ہائی اسکول میں داخلہ لیا اور پورے شہر میں پہلی پوزیشن حاصل کی ۔ پہلی پوزیشن حاصل کرنے پر حکومت کی طرف سے ایک سال کی اسکالرشپ دی گئی۔گھر والے آپ کی زندگی کا ایک واقعہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ والدہ نے کسی ضروری کام کی وجہ سے اسکول جانے سے منع کیا تو رونے لگے اور اسکول جانے کی ضد کرنے لگے اور اپنی ضد منوا کر رہے ۔تعلیم حاصل کرنے کے شوق اور ڈاکٹر بننے کی لگن نے آپ کو گھر بیٹھنے نہیں دیا اور اپنا شہر چھوڑ کر حیدرآباد کا رخ کیا ۔حیدرآباد میں آتے ہی لیاقت میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کی ڈگری مکمل کی اور جرنل پریکٹس کے ڈاکٹر بنے۔مزید تعلیم حاصل کرنے کے لئے ملک سے باہر جانا چائتے تھے لیکن گھریلوں مصروفیات کی وجہ سے نہ جا سکے ۔ڈاکٹر لیاقت راجپوت کے گھر والوں کے مطابق آپ اخلاق کے اعلی درجے پرہیں .والدین کی ہمیشہ خدمات کی ساتھ ہی ساتھ اپنے بہن249 بھائیوں سے بھی ہمیشہ نرمی سے پیش آئے۔ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہونے کے باوجود بھی سب کی عزت کی اور ہمیشہ ان کا خیال رکھا۔ خاندانی زبان اردوہے. لیکن آپ کو انگلش249سندھی249 249مارواڑی
غرض مقامی تمام زبانوں پر عبور حاصل ہے. ۱۹۶۸ ؁ میں شادی ہوئی . آپ نے اپنی شادی شدہ زندگی اور پڑھائی کی زمیداریوں کو ساتھ ساتھ پورا کیا۔ آپ کی ۳ بیٹیاں اور ۱یک بیٹا ہے۔ٖآپ نے بیوی کے انتقال کے بعد بچوں کی اکیلے ہی دیکھ بھال کی بیٹیوں کو اچھی تعلیم دی اور بیٹے کو ڈاکٹر بنایا۔ آپ صبروہمت کے پیکر ہیں۔ آپ نے ڈاکٹر کی پڑھائی مکمل کرنے کے بعد لیاقت میڈیکل کالج میں طلبہ کو پڑھانا شروع کیا اس کے بعد ۱۷ گریڈ کی گورنمنٹ نوکری ملی اور آہستہ آہستہ مختلف مراحلات سے گزرتے ہوئے ترقی کی اور آخر کار اپنی محنت سے ۲۰ گریڈ تک پہنچے اور پولیس سرجن حیدرآباد میں اپنی خدمات انجام دے کر گورنمنٹ نوکری سے ریٹائرمینٹ لے لی ۔ 
۱۹۸۰ میں اپنے والد عبدالرزاق کے نام سے اپنی ایک کلینک کھولی جس میںآج بھی اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔روز تقریبا ۰۵ سے ۰۰۱ تک مریضوں کو دیکھتے ہیں. مریضوں کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر لیاقت راجپوت کے علاج میں شفاء ہے ،آپ میں مریضوں کو حوصلہ دینے کی صلاحیت موجود ہے آپ کے اخلاق سے اور آپ کے علاج سے مریضوں کو جلد فائدہ ہوتا ہے۔
آپ حیدرآباد کی ایک بہت مشہور اور باوقار شخصیت ہیں.لوگ دور دور سے آپ کے پاس علاج کے لئے آتے ہیں. آپ کا علاج بہت فائدہ مند ہے. ڈاکٹر لیاقت راجپوت کو ان کی اعلی کارکردگی پر مختلف قسم کے اعزازات بھی ملے ہیں . آپ کو حج کی سعادت بھی نصیب ہوئی آپ ایک محنت کش انسان ہیں جو لوگوں کے کام آنے کے لیے اپنی ہر ممکن کوششوں میں مصروف رہتے ہیں . لوگ آپ میں موجودصلاحیتوں سے واقف ہیں اور آپ پر پورا یقین بھی کرتے ہیں. آپ کے پاس مسائل لے کر آتے ہیں تا کہ آپ ان کا کوئی حل نکال سکیں . آپ حیدرآباد کے علاوہ بھی دوسرے شہروں میں اپنی خدمات انجام دیتے ہیں اور اس سے قبل بھی بہت بار دے چکے ہیں . آپ نے اپنی پوری زندگی فلاح وبہبود کے کاموں کے لیے وقف کر رکھی ہے. 
. ڈاکٹر لیاقت راجپوت میں بہت سی خداداد صلاحیتیں موجود ہیں . آپ دائرے میں رہ کر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے مالامال ہیں . آپ کو ایک سلجھا ہوا شخص کہنا غلط نہ ہوگا.
------------------------------------------------------------------------------------------------------- 
Fareena Aslam
2k16/MmC/21
M.A pervious Improve
Interview

ارسلان مغل انٹرویو دینی و دنیاوی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ بے زبانوں کی تعلیم کی فکر

ارسلان مغل کا تعلق کوٹری شہرکے ایک سادہ خاندان سے ہے ارسلان مغل کی پیدائش 1986ء میں کوٹری سے چند منٹ کے فاصلے پر ایک گاؤں جو کہ کارو کھو میں ہوئی ان کے والد کا نام گلزار احمد مغل ہے جو کہ پی۔آئی۔اے ہائی اسکول کوٹری کے پرنسپل ہیں، والد کی دینی تعلیم میں دلچسپی رکھنے کے باعث انہوں نے اپنے بیٹے کو مدرسے میں داخلہ دلوایااور دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم بھی حاصل کی آپ اس معاشرے کے خصوصی افراد کے لیے دل میں بہت درد رکھتے تھے اور آپ ان افراد کے لیے کچھ خاص کرنا چاہتے تھے۔ 
سوال : آپ نے اپنی تعلیم کہا ں سے حاصل کی؟
جواب: میں نے اپنی تعلیم انٹر میڈیٹ تک مدرسے میں حاصل کی اور اس کے ٖبعد کالج سے پرائیویٹ بی۔اے کیا ۔
سوال: سُنا ہے آپ گونگوں کو بھی تعلیم دیتے ہیں ؟
جواب: جی ہاں میں نے اپنے ا سکول میں ایک خاص کلاس بنار کھی ہے جس میں گونگوں کو تعلیم دی جاتی ہے اور اس کا مقصد معاشرے میں ان کی پہچان کروانہ ہے ۔
سوال: ایسی کیا وجہ تھی کہ آپ نے گونگوں میں تعلیم کو بیدار کرنے کا فیصلہ کیا ؟
جواب: میں سوچتا ہوں کہ جتنی یہ دنیا ہماری ہے اتنی ہی ان بے زبان (گونگوں) کی بھی ہے کیونکہ تعلیم سب کے لئے ضروری ہے چاہے وہ زبان سے بولنے والے ہوں یا زبان سے گونگے ہوں اس لیے میں نے انہیں بھی تعلیم کی روشنی سے ہمکنار کرنے کا فیصلہ کیا ۔
سوال: آپ گونگے طلباء کا مستقبل کس طرح سے د یکھتے ہیں ؟
جواب :پاکستان کے تقریبا حکومتی اداروں میں خصو صی افراد کے لیے کوٹہ موجود ہے جس سے یہ گونگے طلباء فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور طلباء اپنا مستقبل روشن کر سکتے ہیں ۔ 

سوال : آپ گونگے شاگرد وں اور عام شاگردوں میں کیا فرق محسوس کرتے ہیں ؟
جواب: عام طلباء سے ہم آسانی سے رائے حاصل کر سکتے ہیں لیکن بے زبان طلباء سے ہمیں رائے لینے سے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو بات عام طلباء آسانی سے سمجھ لیتے ہیں وہی بات گونگے طلباء کو اشاروں سے سمجھنے میں کافی وقت لگتا ہے ۔
سوال: آپ لندن کس لئے گئے تھے؟
جواب: میں لندن تین سال کے لئے گیا تھا وہاں اچھی ملازمت مل گئی تھی اور ایک فلاحی تنظیم میں خدمت سر انجام دے رہا تھا۔ 
سوال: لندن میں کوئی ایساواقعہ جسے آپ یاد کر کے دکھی ہو جاتے ہوں؟
جواب: لندن میں میری ایک دوست تھی جس کا نام جولی تھا جو میرے ساتھ کام کرتی تھی اورہمیشہ میری مدد کرتی تھی لیکن کسی حادثہ کہ سبب و ہ اب اس دنیا میں نہیں رہی جسے یاد کرکے میں اکثر رنجیدہ ہو جاتا ہوں۔
سوال: آپ پاکستان کی یوتھ کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟
جواب: پاکستان کی یوتھ پاکستان کا مستقبل ہے اور یہ یوتھ پاکستان کو بدلنے کا عزم رکھتی ہے محنت کرے آگے بڑے اور پاکستان کا نام روشن کریں۔ 
------------------------------------------------------------------------------------------------------ 
Fareena Aslam
2k16/MmC/21
M.A pervious Improve
Feature: Gani Park
غنی پارکٹنڈوالہیار میں جہاں سیروتفریح کی بات آتی ہے تو لوگوں کی زبانوں پر غنی پارک کا نام سرفہرست رہتا ہے . ویسے تو ہر خوبصورت صبح کا آغاز مرغوں کی آزان 249 چڑیاؤں کے چہچہانے اور لوگوں کا مسجد کی طرف رخ سے ہوتا ہے لیکن ٹنڈوالہیار کی خواتین اور مرد حضرات کی صبح کا آغاز نماز کے بعد غنی پارک میں ورزش سے ہوتا ہے جہاں صبح سویرے ہی لوگ بہت بڑی تعداد میں نظر آتے ہیں . غنی پارک لڑکوں کے کھیل کے لیے ایک بہترین گراؤنڈ کے طور پر بھی جانا جاتا ہے . سردیوں میں بوڑھے بزرگ دھوپ کھاتے 249 چھوٹے بچے آپس میں کھیلتے اور نوجوان موبائل پر لگے نظر آتے ہیں جبکہ گرمیوں میں نوجوانوں اور بزرگوں کا رش تروتازہ ہوا کے لیے نظر آتا ہے. رات کے ٹائم غنی پارک کو ڈیٹ پوائنٹ بھی کہا جاتا ہے .غنی پارک جس جگہ ہے وہاں کچھ عرصہ پہلے دلدل ہوا کرتی تھی جسے اب بنا کر ایک خوبصورت پارک کا نام دے دیا گیا ہے. شروع میں یہاں بچوں کے لیے جھولے لگائے گئے تھے . جس سے یہ خاص بچوں کی توجہ کا مرکز بنا لیکن آہستہ آہستہ بچوں کی یہ خوشی دور ہوگئی اور جھولے خراب ہونے کی وجہ سے انھیں ہٹا دیا گیا . اس کے علاوہ بھی بہت سی تقریبات ہوتی ہیں جن میں ہر طرح کی پولٹیکل پارٹیز کے جلسے249 جلوس 249 شادی کی تقریبات 249 مینا بازار 249 رنگ برنگے فیسٹیول 249 فٹ بال249 ٹینس249 اور ہر طرح کے گیمز کھیلے جاتے ہیں اور اس کے علاوہ مختلف پروگرامز بڑی تعداد میں منعقد ہوتے ہیں . ریلی میں جانے کے لیے لوگوں کو ایک مخصوص ٹائم دے دیا جاتا ہے اور پھر اسی ٹائم پر ریلی غنی پارک سے ہی نکالی جاتی ہے اور وہیں اختتام پزیر بھی ہوتی ہے. 
بچوں کا کہنا ہے کہ وہاں با قاعدہ کرکٹ کے لیے پچز ہیں جس کی وجہ سے کھیل کا مزہ دوبالا ہو جاتا ہے اس لیے ہم کھیل کے لیے غنی پارک کا رخ کرتے ہیں یہاں تازہ ہوا سے کھیل میں ہار اور جیت کا مقابلہ بہت زبردست ہوتا ہے اور ہم سب دوست یہاں کھیل سے زیادہ .غنی پارک کا مزہ لینے آتے ہیں . کبھی جیتے ایم ۔کیو ۔ایم جیتے تو کبھی راجہ کی آئے گی بارات جیسی مختلف قسم کی آوازوں سے گونجتا ہے جہاں ایک طرف یہ لوگوں کے لیے ایک تفریح کی جگہ ہے وہیں جو لوگ اس کے آ س پاس رہتے ہیں ان کے لیے پریشانی کی بھی وجہ ہے . ان سب کے لیے روز روز کا شوروگل ان کی زندگی میں بہت سی پریشانیوں کا سبب بنتا ہے لیکن زیادہ تر لوگوں کا دھیان اب اس آواز کی طرف نہیں جاتا کیونکہ انھیں اب ان آوازوں کی عادت سی ہوگئی ہے . .غنی پارک کو سرکاری باغ کہنا درست نا ہوگا کیونکہ یہ ڈاکٹر راحیلہ گل مگسی کی بدولت دلدل سے .غنی پارک کی شکل میں منتقل ہوا . کوئی بھی ریلی ہو 249 ۴۱ اگست کا جشن ہو یا نئے سال کی آتش بازیاں سب سے پہلے غنی پارک ہی میں رونق کا سماں ہوتا ہے . 
.غنی پارک میں ٹورنامینٹ ہوتے ہیں جس میں بہت سی ٹیمیں حصہ لیتی ہیں. ٹنڈوالہیار میں ۳ سال پہلے مختلف اسکولوں نے مل کر ٹورنامینٹ رکھا جس میں تمام اسکولوں نے آگے بڑھ کر حصہ لیا لیکن اس سے پہلے اسکولوں نے اپنی ٹیمیں تیار کرنے کے لیے پورے اسکول سے بچوں کو چن چن کر نکالا اور ایک مضبوط ٹیم تیار کی . اور پھر ان کا آپس میں میچ رکھا نویں کلاس کا دسویں کلاس سے اور گیارہویں کلاس کا بارہویں کلاس سے پھر ان چارو ں ٹیموں میں سے جن دو ٹیموں نے فتح حاصل کی ان کا ایک دوسرے سے فائنل کروایا گیا اور فائنل جس ٹیم کا مقدر بنا اس کو اسکول کی طرف سے ددسرے اسکولوں کی فائنل ٹیم سے مقابلے کے لیے بھیجا گیا اور آ خر میں ایگل ہاؤس ہائیر سکینڈری اسکول نے پورے ٹنڈوالہیار سے کامیابی حاصل کی . اور دوسرے نمبر پر فاؤنڈیشن پبلک اسکول نے دوسری پوزیشن حاصل کی . اس میچ کے دوران اسکولوں کی لڑکیاں کالے برکھے میں میچ دیکھنے آتیں تھیں جس سے ٹنڈوالہیار کے لوگوں نے ایک نیا ہی نام نکال دیا تھا ’غنی پارک میں کالے کوے ‘ . اس کے علاوہ رمضانوں میں بھی ٹورنامینٹ ہوتے ہیں اور ٹیمیں دوسرے شہروں یا گاؤں سے آکر حصہ لیتی ہیں اور ساتھ ہی ڈھول بجا کر ماحول کو تازگی بغشتے ہیں اور اپنی اپنی ٹیموں کا حوصلہ بڑھاتے ہیں. 
غنی پارک لوگوں کے لیے ایک مکمل گزرگاہ ہے . غنی پارک کے سامنے رہنے والے ایک لڑکے کا کہنا ہے کہ اچھی ہوا کی وجہ سے میرے والد صاحب ایک دفعہ گرمی کے باعث اور لائٹ نا آنے کی وجہ سے تختہ لگا کر غنی پارک میں سو رہے تھے کہ اچانک ایک کتا بھونکا ان کی آنکھ کھلی تو انھوں نے کتے کو اپنی طرف آتا دیکھا وہ ایک دم چونک اٹھے اور سامان کی پرواہ کئے بغیر گھر کی طرف
دوڑ لگائی . غنی پارک لوگوں کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے . غنی پارک کبڈی اور مرغے کی لڑائیوں کا اہم مرکز ہے. ویسے تو غنی پارک ایک عام سا میدان ہے لیکن لوگ کسی طور بھی اسے عام نہیں سمجھتے . 

No comments:

Post a Comment