Monday, 22 April 2019

Zoheb Kamal - يونيورسٽي جي هاسٽل لائيف


يونيورسٽي جي هاسٽل لائيف
    (فيچر:زوهيب ڪمال پٺاڻ)
هونئن ته يونيورسٽي جا چار سال زندگيءَ جا رنگين ڏينهن هوندا آھن،جن ۾ نئين ٽھي جوانيءَ ۾ زندگيءَ جا حسين خواب ڏسندي آھي پر ان ۾ هاسٽل لائيف جا رنگ ۽ ڍنگ ئي پنهنجا آھن.ڪن ته يونيورسٽي لائيف جي رنگن کي هاسٽل لائيف جي رنگن سان مشروط قرار ڏنو آھي.صبح سوير اٿي ٽوال ڪلهن ۾ اوڍي بالٽي کڻي واش روم جي در تي وهنجڻ لاء قطار ڪري بيهي اندرين جو انتظار ڪرڻ کان ويندي تڙ تڪڙ ۾ سنبري ناشتو ڪري شعبي ۾ پهچي ڪلاس اٽينڊ ڪرڻ ۽ پوء وري ڪئنٽين ۾ چانه سموسا کائڻ هڪٻئي سان ٽھڪ ڏئي تاڙيون ملائڻ نوٽس جي ڪاپي ڪرائي ٽاڪ منجهند جو واپس اچي ماني کائڻ سا به اهڙي جيڪا نه وڻندي به کائي ڇڏجي ۽ پوء منجند کان شام چئين وڳي تائين ننڊ ڪري اٿي ڪتابن جو ٿيلهو  کڻي سينٽرل لائبريري جو رخ ڪري اسائنمنٽ ٺاهڻ ۽ ٻيو هوم ورڪ ڪرڻ هي سڀ هاسٽل وارن جا رنگ ۽ طور طريقا آھن.وري شام جي پهر ۾ ڄامشوري جي هوائن جو مست ٿيڻ ۽ قهر وارو پهر شروع ٿيڻ ٽولن ۾ نڪري چانه جون سرڪيون ڀرڻ سج لٿي ڦاٽڪ تي وڃڻ لاء پوائنٽ بس جو انتظار ڪرڻ لاء سينٽرل ڪئنٽين لان وٽ قطار ڪري بيهڻ اتان ماني کائي واپس اچي ٿورو گهڻو پڙھڻ ۽ پوء هڪٻئي جي رومن تي وڃي ڪچهريون ۽ مذاقون ڪرڻ رات جي آخري چانهن پيئڻ لاء وري بلاڪس هاسٽل تي مامي برفت واري ڪئنٽين تي چانه پيئڻ لاء وڃڻ (جتي اڪثر جلال چانڊيو جا گيت هلندا آھن) جنهنڪري ڪجه شاگرد جلال واري ڪئنٽين به چوندا آھن.اتان واپس اچي هاسٽل جي ڇت تي اڪثر ڇوڪرا چڙھي يا ته سگريٽ جا ڪش هڻندا ۽ فون تي ڳالهائيندا آھي يا وري ٽولي ۾ ويهي واري واري سان شاعري ٻڌائيندا ۽ جهونگاريندا آھن.جنهن کانپوء رم تي رات دير تائين جاڳندا ۽ اڄڪله سوشل ميڊيا جو استعمال ڪندا آھن اھڙيءَ طرح هو سمهي وري صبح جو ساڳئي طرح اٿندا ۽ ڪلاس ويندا آھن.
هاسٽل ۾ رهندڙ شاگردن جي زندگي سادگي سان گذرندي آھي ڇاڪاڻ ته اتي رهندڙ شاگرد اڪثر غريب خاندان  سان رهندا آھن.
هاسٽل ۾ رهڻ سان سڄي سنڌ جي نوجوانن جو هڪٻئي سان سماجي تعلق جڙي ٿو جنهنڪري هڪٻئي جي علائقن،رهڻي ڪهڻي،سماجي حالتن جو ڀلي بت پتو پئي ٿو ۽ اڪثر دوستيون ۽ تعلقات هاسٽل ۾ جڙن ٿا. هاسٽل ۾ رهندڙ شاگرد رواداري جا قائل ۽ صوفياڻي مزاج جا ٿين ٿا جنهنڪري ڪو ننڍو وڏو مسئلو ٿيڻ جي صورت ۾ هو ڪنهن ٻئي ڏانهن وڃڻ بجاء هڪٻئي ۾ حل ڪري وٺن ٿا.شاگردن جي ڪچهري جا موضوع سياست،سماجيات،فلسفو مذھب وغيره هجن ٿا جنهن ۾ صحتمند بحث به ٿين ٿا.ادب،آرٽ ۽ شاعري ڏانهن لاڙو رکندڙ ھاسٽلر سٺا ليکڪ به ٿين ٿا منجهن سٺيون روايتون جنم وٺن ٿيون جهڙوڪ هڪٻئي جون سالگراهون ملهائڻ ڏکئي وقت ۾ هڪٻئي جي ڪم اچڻ.موڪل جو ڏينهن شاگرد ننڊ جو مزو وٺندا آھن.۽ شام جي وقت ڪرڪيٽ کيڏندا آھن يا حيدرآباد گهمڻ ويندا آھن ۽ موڪل واري رات وري فلم ڏسندا آھن.پيپرن جي ٽائيم هڪٻئي کي تياري ڪرائڻ ۽ گروپ اسٽيڊي جو رجهان به نظر ايندو آھي.
مطلب ته هي سڀ زندگي جا رنگ جيڪي اجتماعي طور اپنايا وڃن ٿا سي هاسٽل لائيف ۾ آھن جيڪي سڀ ٻاهر رهندڙ شاگرد اپنائي نه ٿا سگهن ڇاڪاڻ ته گروپن ۾ رهڻ سبب شاگردن جي ذھني اوسر ۽ تربيت وڌيڪ ٿئي ٿي.

زوهيب ڪمال پٺاڻ
2K14M/C:122

Wednesday, 3 April 2019

Mehnaz Sabir

Mehnaz Sabir imrpover faialure

بادام....یاداشت کے لئے اکسیر

قدرت کی طرف سے انسان کے لئے عطا کردہ نعمتوں میں سے ایک نعمت خشک میوہ جات بھی ہیں،اور ان میوہ جات میں سرِفہرست’’بادام‘‘ہیں۔بادام کی غذائی افادیت کی وجہ سے انہیں میوہ کا بادشاہ بھی کہا جاتا ہے۔بادام کے اجزاء ترکیبی میں حیاتین ب(تھایا مین)،حیاتین ب (2)(رابنوفلاوین)،نایا مین،کیلیشیم،فولاد،فاسفورس ،نشاستہ،چکنائی ،پروٹین،پوٹاشیم اور فاسفیٹ شامل ہیں۔ان سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بادام بچوں،نوجوانوں اور بوڑھے افراد کے لئے یکساں مفید ہیں۔

بادام سے اعصاب مضبوط ہوتے ہیں اور جسم کی بھی نشوونما ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ پہلوان اور باڈی بلڈرز(تن ساز) خاص طور پر بادام کا استعمال کرتے ہیں۔بادام کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ انہیں کھانے سے جسم میں چربی نہیں بڑھتی،بلکہ کیلشیم کی کمی پوری ہو جاتی ہے اور یوں دانت اور ہڈیاں مضبوط اور مستحکم ہوتے ہیں۔زود ہضم ہونے کی وجہ سے بادام دماغ اور بینائی کے لئے بھی انتہائی مفید ہیں،خصوصاً دماغی کام کرنے والوں کے لئے تو بادام نعمتِ خداوندی ہیں۔بادام میں چوں کہ حراروں کی کافی مقدار ہوتی ہے(ایک سو گرام بادام میں چھ سو حرارے موجود ہوتے ہیں)،اس لئے موسم سرما میں ان کا استعمال بہت مفید ہوتا ہے۔
بعض اوقات گرم مزاج لوگوں کو بادام موافق نہیں آتے،تو ایسے لوگ بادام کا استعمال سردائی کی صورت کر سکتے ہیں،جو خالصتاً ایک مشرقی مشروب ہے۔سردائی کی تیاری کا طریقہ درج ذیل ہے۔دودھ ایک کلو،مغزِبادام15عدد،خشخاش ایک چائے کا چمچہ،چھوٹی الائچی دو عدد،سونف ایک چمچ،مغزِ پستہ10عدد،شہد ایک چمچ۔ان اشیاء کو دودھ میں پیس کر برف سے ٹھنڈا کر کے استعمال کریں،نہ صرف طبیعت کو فرحت حاصل ہو گی،بلکہ جسم کو توانائی بھی ملے گی۔
قدرت کی اس نعمت سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لئے ضروری ہے کہ موسم کی مناسبت اور درست طریقے سے اس کا استعمال کیا جائے۔اطباء صدیوں سے اس کا استعمال کرتے آ رہے ہیں۔جو لوگ دماغی کام،مثلاً لکھنے پڑھنے کا کام کرتے ہیں،انہیں لازماً بادام کا استعمال کرنا چاہئے۔اس مقصد کے لئے روزانہ دس عدد مغز بادام خوب چبا کر کھا لیا کریں۔جن لوگوں کو گلے میں بلغم کی شکایت ہویا دن بھر گلا کھنکار کر صاف کرتے ہوں،جسے نزلہ گرنا یا کیرا بھی کہتے ہیں،تو وہ روزانہ صبح نہار منہ پانچ عدد بادام،تین عدد کالی مرچ کے ساتھ خوب چبا کر کھا یا کریں۔جو لوگ اوائل عمر سے یہ معمول باندھ لیتے ہیں،وہ دماغی واعصابی کم زوری سے محفوظ رہتے ہیں۔
طلبہ کو دماغی استعداد قائم رکھنے یایاداشت بڑھانے کے لئے بادام کا استعمال روز مرہ کی غذا میں شامل رکھنا چاہئے۔اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ رات کو سات بادام پانی میں بھگو دیں اور صبح نہار منہ چھیل کر کھا لیں۔یہ نسخہ دماغی توانائی برقراررکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔بادام کا دودھ بھی ایک عمدہ غذا اور لاجواب مشروب ہے۔اس کے اندر پروٹین وافر مقدار میں موجود ہوتی ہے۔خون کی کمی،آنتوں کے امراض اور جگر کے لئے انتہائی مفید ہے۔بادام کا روغن بھی کشید کیا جاتا ہے۔جو بہترین اثرات رکھتا ہے۔طب میں اس روغن کا استعمال قبض کُشا کے طور پرکیا جاتا ہے۔یہ روغن آنتوں اور دماغ کی خشکی کو دور کرتا ہے۔قبض ختم کرنے کے لئے ایک گلاس دودھ میں دو چمچ روغن بادام ملا کر پی لیں،بہت جلد قبض سے نجات مل جائے گی۔
بادام پر کی گئی ایک جدید تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اس کے مستقل استعمال سے خون میں کولیسٹرول کی سطح کم کی جا سکتی ہے۔نیز، بادام صحتِ قلب کے لئے بھی مفید ہے۔اس سے قبل بادام میں موجود چکنائی کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ اس سے وزن بڑھتا ہے،مگر اس نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ یہ تجزیہ غلط ہے۔
امریکا میں لاس اینجلس کے طبی مرکزِ تحقیقات کے ڈائریکٹر،ڈاکٹر جین اسپیلر کی تازہ ترین تحقیق کے مطابق مردوں اور خواتین کے تین گروپس کو(اُن سب کا کولیسٹرول بڑھا ہوا تھا)ایسی غذائیں کھلائی گئیں،جو امراضِ قلب میں مفید تھیں۔اضافی چکنائی کے طور پرایک گروپ کو زیتون کا تیل،دوسرے کو مکھن اور تیسرے کو بادام دئیے گئے۔جب چار ہفتوں بعد کولیسٹرول کی پیمائش کی گئی،تو پتا چلا کہ بادام کھانے والے گروپ میں کولیسٹرول کی سطح نسبتاًکم رہی،جب کہ زیتون اورپنیر کھانے والوں کے کولیسٹرول میں اضافہ ہوا۔ڈاکٹر جین کہتے ہیں کہ ’’ابھی ہم کسی حتمی نتیجے تک نہیں پہنچے،بات قیافے اور قیاس تک ہے،تا ہم جو لوگ اپنا کولیسٹرول کم کرنا چاہتے ہیں،انہیں چاہیے کہ وہ اپنی غذا میں بادام ضرور شامل رکھیں‘‘۔


------------------------------------- 

نایاب نسل کے پرندوں اور جانوروں کا غیر قانونی شکار

سندھ میں جب بہار آئے تو سارا حسن گویا جنگلات میں سمٹ آتا ہے۔کراچی اور حیدرآباد کی حدود سے نکلتے ہی کھیتوں کی برساتی مہک بہکانے لگتی ہے۔سانگھڑ سے لاڑکانہ تک کی جھیلوں میں پرندوں کا شور بڑھ جاتا ہے۔تھر کے صحرا میں بادِ صبابے قرار پھرتی ہے اور دریائے سندھ کے پانی میں لہر لہر مچل جاتی ہے۔
یہ موسم دور دیس سے آئے خوبصورت مہمان پرندوں کی واپسی کا ہے مگر اکثر اوقات واپسی میں ان کی تعدادبے حد کم ہو جاتی ہے،اس کی وجہ ان کا بے رحمانہ اور غیر قانونی شکار ہے۔دنیا بھر میں جنگلات اور ان میں بسنے والے جانوروں کی حفاظت کے لئے سرجوڑ کر بیٹھا جاتا ہے،طرح طرح کے طریقے آزمائے جاتے ہیں مگر افسوس صد افسوس کہ پاکستان ان معاملات میں بھی بے پروائی اور غفلت کا شکار ہے۔جس وڈیرے،جس زمیندار،جس سرمایہ دار کا دل چاہتا ہے،وہ بندوق اُٹھا کر سندھ کی حسین جھیلوں کو معصوم پرندوں کے خون سے لال کر دیتا ہے۔
سندھ کی جھیلوں اور دیگر آب گاہوں میں انہی حسین پرندوں کے باعث رونق ہے۔سائبیریا اور روس سے آنے والے یہ مہمان نومبر سے فروری کے اواخر تک دکھائی دیتے ہیں۔ان کی آمد کا موسم شروع ہوتے ہی شکاریوں کے جال بھی بچھ جاتے ہیں وہ بندوقیں تھامے ہر رکاوٹ دور کرتے جنگلوں اور ویرانوں میں بھٹکتے پھرتے ہیں،آبی خوراک کی تلاش میںیہ معصوم پرندے ہالیجی جھیل کو بھر دیتے تھے مگر اب وہاں پرندوں کی نسل ختم ہوتی جا رہی ہے۔محکمہ وائلڈ لائف کے اہلکار جانوروں سے محبت کا دعویٰ تو کرتے ہیں مگر ان کے شکار کے لئے سہولتیں بھی یہی لوگ دیتے ہیں۔
سندھ کے علاوہ بلوچستان بھی شکاریوں کی پسندیدہ جگہ ہے ،جہاں موسم سرما کے اواخر میں تلور کا شکار بے دریغ کیا جاتا ہے۔برطانوی نشریاتی ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق بلوچستان کے علاقے چاغی اوربعض دوسرے صحرائی علاقوں میں شکاریوں کے کیمپ قائم ہو جاتے ہیں جو نایاب نسل کے تلور کا صفایا کرنے کے لئے اپنی بندوقیں چمکاتے ہیں،ان شکاریوں کو جاری کردہ پرمٹ میں محدود تعداد میں شکار کی اجازت دی جاتی ہے مگر یہ لوگ قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے اپنی من مانی کرتے ہیں۔دس دنوں میں انھیں صرف 100تلور کے شکار کی اجازت دی جاتی ہے مگرایک اندازے کے مطابق ایک دن میں یہ لوگ دو،تین سو تلور شکار کر لیتے ہیں اور کسی پابندی کو خاطر میں نہیں لایا جاتا۔اس کے باوجود کہ بلوچستان ہائی کورٹ نے ۲۰۱۴ء میں اپنے ایک فیصلے میں شکاریوں کوشکار گاہیں الاٹ کرنے کی مخالفت کی تھی۔عدالت نے کہا تھاکہ جن جنگلی جانوروں کی نسل کی معدومی کا خطرہ لاحق ہو ،ان کے شکار کی اجازت ہر گز نہیں دی جانی چاہیے۔اس لئے وفاقی اور صوبائی حکومتیں جنگلی حیات کے شکار کے بجائے ان کے تحفظ کے لئے اقدامات کریں۔۲۰۱۴ء میں ہی بلوچستان اسمبلی میں یہ بازگشت بھی سنی گئی تھی کہ خلیجی ریاست کے ایک شہزادے نے تلور کی نسل کشی کرتے ہوئے2100پرندوں کا شکار کیا جو ایک ایکارڈ ہے۔
پاکستان کے برعکس بھارت اور نیپال میں غیر قانونی شکار کے خاتمے کے لئے بڑے پیمانے پر اقدامات کئے جاتے ہیں،وہاں حکومت جنگلی جانوروں کے تحفظ اور بقا کے لئے تشہیری مہم پر لاکھوں ڈالر خرچ کر رہی ہے۔تحفظ حیوانات سے متعلق عالمی اداراے’’ڈبلیو ڈبلیو ایف‘‘ کے مطابق اس خطے (جنوبی ایشیا)میں شیروں کے تحفظ کے معاملے میں نیپال اور بھارت سب سے آگے ہیں۔حالیہ برسوں کے دوران بھارت میں شیروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے،اسی طرح نیپال میں کسی ایک شیر کا بھی غیر قانونی شکارنہیں کیا گیا مگر پاکستان میں گزشتہ کئی دہائیوں سے غیر قانونی شکار کا سلسلہ جاری ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ موسم سرما میں سائبیریا اور دیگر سرد ترین مقامات سے پاکستان آنے والے مہمان آبی پرندوں کی تعداد بھی کم ہوتی جا رہی ہے،اس کی اہم وجہ تو غیر قانونی شکار ہی ہے،اس کے علاوہ سندھ کی جھیلوں میں ان پرندوں کی پسندیدہ غذا ایک خاص قسم کے بیج اور پتّے ہیں مگرفصلوں اور کھیتوں میں کیڑے مار ادویات کے بے تحاشا چھڑکاؤ نے ان کی خوراک بھی زہریلی کر دی ہے۔یہ آبی پرندے ان دواؤں کے مہلک اثرات سے ہلاک ہو جاتے ہیں اور جو بچ جائیں وہ افزائش کی طاقت سے محروم رہتے ہیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان سے آگے بھارتی صوبہ راجھستان اور گجرات کی جھیلیں اور تالاب ان آبی پرندوں کو خوب راس آچکے ہیں۔جہاں ادویات کا یوں بے تحاشا چھڑکاؤ کیا جاتا ہے نہ غیر قانونی شکار کا خطرہ موجود ہے۔
جنگلی حیات کے حسن اور تنوع کے لحاظ سے پاکستان دنیا بھر میں مشہور ہے۔اس حسین ملک میں جنگل،دریا،پہاڑ.....سبھی کچھ ہے،چاہے وہ بلوچستان ہو کہ جہاں گوادرکے نیلے ساحل اور قلّات کی اونچی چوٹیاں ہیں،پنجاب کے میلوں پھیلے کھیتوں کے سلسلے اور گلیات کے نظارے ہوں،خیبر پختونخواہ کی برف پوش چوٹیاں ہوں یا سندھ کے سنگھار میں اضافہ کرتے جنگلات،مٹھی بھرلوگوں کے شوق کی خاطران سب کی تباہی و بر بادی کسی محب وطن پاکستانی کو منظور نہیں،لہٰذا یہ ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ہم میں سے ہر شہری جنگلی حیات کے تحفظ اور بقا کو یقینی بنانے کے لئے اپنا فرض ادا کرے۔
------------------------------------------------------------
موسمیاتی تبدیلی سے ماحول اور معیشت خطرے میں۔۔۔!



اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ انسان نے اپنی عقل ودانش کو استعمال کرتے ہوئے ترقی کی وہ منازل طے کرلی ہیں ، کہ جن کے بارے میں آج سے ہزاروں سال پہلے کے انسان سوچ بھی نہیں سکتے تھے مگر ستاروں پر کمندیں ڈالنے اور سیکنڈوں میں دنیا کی تمام معلومات تک انگلی کے ایک اشارے پر رسائی حاصل کرنے والا انسان قدرت کے رازوں کو اتنی ترقی کے باوجوداس انداز سے نہیں جان سکاجس کا وہ دعویٰ کرتا نظرآتا ہے تمام تر کوششوں اور جدیدترین آلات بنانے کے باوجود ابھی تک موسموں میں ہونے والی تبدیلیوں اور ان کے اثرات کے بارے میں معاملہ پیشنگوئیوں سے آگے بڑھتا نظرنہیںآتا۔ قدرتی آفات کب آئیں گی اورکتنانقصان کرینگی؟یہ ایک سوال ہے جس کا جواب آج بھی کسی کے بس کی بات نہیں ۔
انسان نے قانون اورقدرت کی خلاف ورزیاں کرتے ہوئے فطرت کو تبدیل کرنے کی جو کوششیں کی ہیں ان کے اثرات تیزی سے سامنے آرہے ہیں ہم روزبر وز ترقی کی منازل طے کرتے جارہے ہیں مگر ساتھ ساتھ اپنی زندگی کو اجیرن بھی بناتے جارہے ہیں ۔ انسانی آبادی میں بے پناہ اضافے ، چرند پرند کی تیزی سے ختم ہوتی ہوئی نسلیں ، درختوں کی کٹائی اور جنگلات میں کمی ، کوئلے، تیل، قدرتی گیسوں کا بے دریغ استعمال، کمرے اور دفاتر کو ٹھنڈاکرنے والی مشینوں کی بھرمار کرۂ ارض کے غم وغصہ میں روزبروز اضافے کا سبب بن رہی ہے ۔ 
گلوبل وارمنگ کی کئی وجوہات میں سے زیادہ تر وہی ہیں جوکہ انسان کی اپنی پیداکردہ ہیں ۔جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ بجلی کی پیداوار کو پورا کرنے کے لیے ہم تیل یا گیس جلاتے ہیں اور تیل کا استعمال کاروں اور بسوں میں بھی ہوتاہے تو نتیجتاً کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس فضامیں جاتی ہے. یہ گیس سورج کی ان کرنوں کو واپس خلاء میں جانے سے روکتی ہے۔ جوکہ زمین سے ٹکرا کر یا پانی سے منعکس ہوکرواپس خلاء میں جاتی ہیں جس کی وجہ سے گلوبل وارمنگ یا زمینی تپش میں اضافہ ہورہا ہے ۔
دوسری بڑی وجہ جوگلوبل وارمنگ کی میتھین گیس ہے چاول کی کاشت کے دوران میتھین گیس کا بہت زیادہ اخراج ہوتاہے ۔یہ گیس بھی کاربن ڈائی آکسائیڈ کی طرح اپنا کردار اداکرتی ہے، ذرعی سائنسدان چاول کی کاشت کے ایسے طریقوں کے کامیاب تجربات کررہے ہیں جن سے میتھین کا اخراج کم کیا جاسکتاہے کسانوں کو ایسے طریقے استعمال کرنے پر مائل کرنا اہم ہے ۔ 
تیسری وجہ جو گلوبل وارمنگ کی ہے وہ زیادہ سے زیادہ آبی بخارات کا فضا میں جانا ہے ۔زمین کا درجہ حرارت بڑھنے کی وجہ سے سمندروں، دریاوں اور گلیشئر کا پانی فضا میں آبی بخارات کی شکل میں اُڑجاتا ہے اور ا س طرح ناقابل استعمال کرنیں خلاء میں نہیں جاسکتی اور زمین کا درجہ حرارت بڑھتا رہتا ہے اور آج کل زمین پر درجہ حرارت بڑ ھنے کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے۔
گلوبل وارمنگ کی آخری وجہ درختوں کا کاٹنا ہے زیادہ سے زیادہ درخت کاٹنے سے فضا میں موجود آکسیجن کی مقدار کم اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار زیادہ ہوجاتی ہے۔ کیونکہ درخت کاربن ڈائی آکسائیڈ کو اپنی خوراک بنانے کے لیے استعمال کرتے ہیں اگردرخت کاٹ دیئے جائیں تو فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ زیادہ ہوجاتی ہے اور گلوبل وارمنگ میں اضافے کاسبب بنتی ہے۔
کرۂ ہوائی میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بڑھتی ہوئی مقدار کے سبب عالمی درجہ حرارت میں اضاٖفہ ہورہا ہے۔ اس مظہر کو عالمی گرماؤ یا گلوبل وارمنگ کہا جاتا ہے ۔زمین کی درجہ حرارت میں بلندی کا یہ عمل یوں تو زمانہ قدیم سے جاری ہے ،لیکن اس کی رفتار میں اضافہ گزشتہ صدی میں صنعتی سرگرمیاں بڑھنے سے ہوا ۔ صنعتوں میں پیدواری عمل کے دوران رکازی ایندھن (فوسل فیول) کے استعمال سے بڑے پیمانے پر اس ماحول دشمن گیس کا اخراج ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں بھی فضا میں اس گیس کا حجم مسلسل وسیع کررہا ہے۔ گلوبل وارمنگ گزشتہ دو عشروں سے عالمی اشو بنا ہوا ہے لیکن اس پر قابو پانے کے ضمن میں اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے ۔ تمام ممالک کے نمائندے سال میں ایک بار گلوبل وارمنگ پر غورکرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں لیکن ان اجلاسوں کا اب تک کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوسکا ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ طاقت ور ممالک اپنی صنعتی سرگرمیاں محدود کرنے کے لیے تیارنہیں کیونکہ اس طرح ان کی صنعتی ترقی متاثر ہوگی ۔ 
بہت سی قدرتی آفات کی صورت میں نازل ہونے والی آزمائشوں کو تو روکا نہیں جا سکتا مگر ان کے اثرات اور نقصانات کو کم از کم کیا جاسکتاہے، اور یہی گڈگورننس کی پہچان ہوتی ہے، ان آزمائشوں میں ’گلوبل وارمنگ‘ یعنی ارضی تمازت میں اضافہ بھی شامل ہے جوہماری آئندہ کی آزمائشوں میں شامل ہوگی۔
گلوبل وارمنگ کا بنیادی فیکٹر کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں بہت زیادہ اضافہ ہوناہے اور یہ بہت زیادہ اضافہ پچھلی دوصدیوں کے سرمائیداری نظام کی صنعت کاری کے سرمایہ داری، منافع بازی اور مسابقت کی جنگ اور منڈیوں پر قبضے کی لڑائیوں کا کبھی نا ختم ہونے والا سلسلہ ہے جس نے سلفر ، نائٹروجن اور کاربن گیس کے اشتراک کے ذریعے سانس لینا مشکل کردیا ہے ۔
ماحولیاتی سائنس دانوں کے مطابق صنعتی دور کے ۵۰ سالوں میں ۱۷۵۰ سے ۱۸۰۰ سے قبل گلوبل وارمنگ میں تقریباًایک ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوا تھا مگر بیسوی صدی کے وسط تک اوسط درجہ حرارت میں ساڑھے چار ڈگری سے بھی زیادہ اضافہ ہوا ہے ، ایک اندازے کے مطابق ہر سال 40ارب ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ صنعتوں اور ٹرانسپورٹ میں استعمال ہونے والے فوسل فیولز جلا کر فضامیں چھوڑی جاتی ہے اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو ۲۰۵۰ تک فضا میں کاربن ڈا ئی آکسائیڈ کی مقدار دگنی ہو سکتی ہے جس سے یہ اندیشہ ہوگا کہ زمیں پر زندگی کا وجودممکن نہیں رہے گا۔ 
انیسویں اور بیسویں صدی میں بالترتیب زرعی اور صنعتی انقلاب آ ئے ، زرعی انقلاب آیا تو ہم نے جنگلات ختم کردیئے ملک کے رقبے کے لحاظ سے جنگلات کی تعداد بہت ہی کم ہے پاکستان کے کم ازکم ۱۰ فیصد رقبے پر جنگلات ہونا ضروری تھے۔ اسی طرح جب صنعتی انقلاب آیا
اور جا بہ جا فیکٹریاں قائم ہوئیں تو صنعتوں کی قیام کی وجہ سے نہ صرف لوگوں کو ملازمتوں کے مواقع ملے بلکہ شہری آبادی میں بھی اضافہ ہوا یعنی صنعتی انقلاب کی وجہ سے لوگوں کی شہروں کی طرف ہجرت ہوئی اور درختوں اور جنگلات کو کاٹ کر وہاں انسانو ں کو بسایا گیا صنعتی فاضل مادوں اور بڑھتی ہوئی انسانی آبادی کی وجہ سے پانی آلودہ اور مضرصحت ہورہا ہے ۔ 
ا ب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ صنعتوں کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلی کیسے واقع ہوئی تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان صنعتوں سے خارج ہونیوالی گرین ہاوس گیسز کی وجہ سے سورج کے گرد موجود اوزون تہہ کو نقصان پہنچا نتیجتاً سورج کی انفراریڈ شعاعیں براہ راست اور زیادہ شدت کے ساتھ زمین پر پہنچنے لگیں پھراوزون تہہ میں پڑنے والا شگاف بتدریج شمالی و جنوبی قطب پر پھیلتا چلا گیا اور اس کے نتیجہ میں زمین کے حدت میں اضافہ ہوا ہے اس عالمی حدت میں اضافے کی وجہ سے ہمارے گلیشیئرز پگھلنے لگے اور سطح سمندر میں اضافہ ہونے لگا نیز زرعی اراضی سمندر برد ہونے لگی ۔ 
دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کی وجہ سے پاکستان کے موسم اور ماحول میں بھی ریکارڈ تبدیلی آرہی ہے ایک سروے کے مطابق، پاکستان دنیا کے ان بارہ ممالک میں شامل ہے جہا ں سب سے زیادہ موسمیاتی تبدیلیاں وقوع پذیر ہورہی ہیں، موسمیاتی تبدیلی سے دنیا کے سب سے زیادہ متاثر ممالک میں پاکستان کا تیسرا نمبر ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے پیشِ نظر پاکستان میں اسمارٹ ایگریکلچر متعارف کروانے کی ضرورت ہے ۔سورج مکھی کی فصل پانی کی کمی کا سامنا کرسکتی ہے اور موسمیاتی تبدیلی کو اپنانے کے لئے مثالی ہے ۔اسی طرح بنجرو بیکار زمینوں میں زیتون کی کاشت کامیابی کی داستان بن چکی ہے موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ پاکستان میں ایک زبردست توڑ سنہرے ریشے والی فصل سیسل کی کاشت سے کیا جا سکتا ہے ۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے پیشِ نظر کسانوں نے اپنی فصلیں دو سے تین ہفتے تاخیر سے کاشت کرنا شروع کرد یں ہیں عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق ، موسمیاتی تبدیلی سے دنیا کو پانچ بڑے خطرات کا سامنا ہے جن میں قحط ، سیلا ب، سمندری اور برفانی طوفان، سطح سمندر کی تبدیلی اور ذرعی پیدوار میں کمی شامل ہیں موسمیاتی تبدیلیوں کا جائزہ لینے والے ماہرین کا یہ خیال بھی ہے کہ یہ ایک ٹائم بم ہے اور اس کا سامنا کرنے والے ہر ملک کو احتیاطی تدابیر اختیار کر لینی چا ہئیں پاکستان میں ہونے والی شدید بارشیں ، سیلاب اور زلزلوں کو بھی اسی تبدیلی کا شاخسانہ قرار دیا جارہا ہے ۔ آج کے دور میں دنیا کو جن چیلنجز کا سامنا ہے ان میں موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنا بھی ایک اہم ترین چیلنج ہے۔



----------------------------------------------- 
بیجوں کی عالمی تجوری
انسان کے لیے مستقبل کی زندگی بہت پریشان کن ہوتی جارہی ہے جسکی وجہ بڑھتی ہوئی آبادی اور بدلتے ہوئے موسم وحا لات ہیں خاص طور پر غذائی اجناس کی کمی کا خدشہ بڑھتا جا رہا ہے اور اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے غذائی اجناس کو محفوظ کرنے کی ضرورت ہے۔
اس کام کا آغاز۲۰۰۸ء میں کیا گیا تھا۔ان بیجوں کو ایسے محفوظ کیا گیا ہے جیسے ان کے لئے وقت ٹھہر گیا ہو۔ان پر بیرونی ماحول کا کوئی اثر نہیں ہو رہا۔یہ باہر ہونی والی تباہ کاریوں، قحط سالی، بیماریوں اور ہر طرح کی جنگ و جدول کے اثرات سے محفوظ ہیں۔عام انسانی آنکھوں سے پوشیدہ بیجوں کے یہ نمونے اور دوسرے نباتات شمالی یورپ کے جنگلات کے پہاڑی سلسلے میں نہایت محفوظ طریقے سے رکھے گئے ہیں،جو مستقبل میں ہونے والی کسی ممکنہ عالمی تباہی کی صورت میں زرعی اور غذائی ضروریات کی بنیادی لائف لائن ثابت ہوں گی۔
ایک اندازے کے مطابق دنیاکی آبادی اس صدی کے اختتام تک ۱۱ بلین تک پہنچ جائے گی جبکہ اس کے لئے خوراک کی فراہمی کے لئے اتنے وسائل اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکیں گے اگر ان کے لئے پہلے سے پیش بندی نہ کرلی جائے۔ ظاہر ہے کہ اتنی بڑی آبادی کے لئے خوراک کی فراہمی کسانوں اور غذائی اجناس بنانے والے اداروں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنے کا امکان واضح ہے اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے اور وقتاًفوقتاً پیدا ہونے والی بیماریوں اور دیگر تباہ کاریوں سے تباہ ہونے والی فصلوں کو دیکھتے ہوئے عالمی کمیونٹی نے مستقبل میں انسانیت کی بقا کے لئے اہم اقدام کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جس کے نتیجے میں ناروے اور نارتھ پول کے درمیان واقع جزیرے کے پہاڑوں میں ایک زیرزمین گہری تجوری بنانے کا فیصلہ کیاگیا جسے بیجوں کی عالمی تجوریGlobal seed vault))کا نام دیا گیا اس تجوری میں سب سے پہلے کینیا سے تعلق رکھنے والی ماہر ماحولیات اور نوبل انعام یافتہ آنجہانی ونگاری متھائی نے فروری ۲۰۰۸ء میں چاول کے بیجوں کا ایک ڈبہ محفوظ کیا تھا۔ان کے اس عمل کے اب حوصلہ افزا نتائج آنا شروع ہو گئے ہیں۔
دنیا کی اس منفرد تجوری میں مختلف ملکوں کی حکومتوں، نجی اداروں،این جی اوز اور عوامی سطح پراسی طرح دنیا بھر کے دیگر ذرائع سے جمع کئے جانے والے بیج محفوظ کئے جا رہے ہیں۔اس تجوری کا اصل مقصد ہر اس پودے کے بیجوں کومحفوظ کرنا ہے جن کے پودے اور پھل خوراک کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں۔اس تجوری کو بنانے میں تین اداروں(ناروے کی حکومت،فصلوں کو محفوظ بنانے والا ٹرسٹ اور نورڈک جنرل بینک) کا اشتراک شامل ہے۔اس تجوری کے شراکت داراو ر گلوبل ڈائیورسٹی کورپ ٹرسٹ کے پارٹنر شپ اینڈ کمیونیکیشن آفیسر برائن لینوف کا کہنا ہے کہ اس تجوری میں محفوظ کئے جانے والے بیجوں کی بیک اپ ان ہی لوگوں کی ملکیت ہیں جو انہیں یہاں جمع کرارہے ہیں۔
اس وقت عالمی سطح پر۱۷۰۰ سے زیادہ جین بینک غذائی اجناس کی فصلوں کے نمونے محفوظ کر رہے ہیں،ان میں سے زیادہ تر کو نا صرف قدرتی آفات کا بلکہ ان میں لڑی جانے والی جنگوں اور اس میں جلنے والے بارود سے پیدا ہونے والے نقصان کا بھی سامنا ہے۔ ایسے میں جمع کئے جانے والے بیجوں کے اہم ذخیرے تباہ ہو جانے کا شدید خدشہ موجود ہے۔اس کی سب سے بڑی مثال عراق میں ابو غریب جیل کے قریب واقع بیجوں کی ایک تجوری ہے،جو ۲۰۰۳ء میں امریکی حملوں میں تباہ ہو گئی تھی،اسی طرح افغانستان میں محفوظ کئے جانے والا ذخیرہ لوٹ لیا گیا تھا جو بعد میں ضائع ہو گیا۔
بیجوں کی اس عالمی تجوری میں ۵.۴ ملین نمونے محفوظ کرنے کی گنجائش موجود ہے جن میں سے ہر نمونے کے ۵۰۰ بیج محفوظ کئے جا سکیں گے۔یعنی مجموعی طور پر اس تجوری میں ۲۵.۲ بلین بیجوں کو محفوظ کیا جا سکتا ہے۔تا حال اس میں تقریباً تمام ممالک کے نمونے محفوظ ہیں جن میں فرانس، چین، جا پان بھی شامل ہیں،جبکہ توقع ہے کہ مستقبل قریب میں بھارت اور برازیل بھی اس سلسلے میں اہم کردار ادا کریں گے۔
فصلوں کو محفوظ کرنے کیلئے اس ٹرسٹ نے اپنا بیجوں کی تجوری بنانے کا پانچ سالہ پروجیکٹ ۲۰۱۲ء میں مکمل کیا تھا اور اب تک اس میں ۸۰۰۰۰ ایسی اقسام کی فصلوں کو محفوظ کیا جا چکا ہے جن کے معدوم ہو جانے کا خدشہ پیدا ہو گیا تھا یہ اب تک اپنی نوعیت کا سب سے بڑا آپریشن ہے۔
اس عالمی تجوری میں خاص طور پر امریکا اور ایشیا سے منفرد اقسام کے بیجوں کے نمونے محفوظ کئے گئے ہیں جن میں مکئی،چاول اور گندم خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔جبکہ یورپ اور جنوبی امریکا سے بند گوبھی،جو اورآلو کے بیجوں کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔یہ وہ فصلیں ہیں جن کا دنیا بھر میں سب سے زیادہ استعمال ہوتا ہے اور ایک اندازے کے مطابق مجموعی طور پر ان کی ۴.۱ ملین اقسام پائی جاتی ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس منفرد عالمی تجوری کے لئے سوالبارڈ کے علاقے کا انتخاب کیوں کیا گیا؟بنیادی طور پر یہ جغرافیائی حقیقت ہے کہ یہ محل وقوع کے اعتبار سے ہر طرح متوازن علاقہ ہے جو اس طرح کی محفوظ عمارت بنانے کے لئے آئیڈل ہے یہاں کا سرد ماحول زیر زمین کولڈ اسٹوریج بنانے کے لئے بہترین سمجھا جاتا ہے ۔اس کے اطراف میں موجود پتھریلا علاقہ عمارت کو تابکاری سے محفوظ رکھتا ہے۔بیجوں کی اس عالمی تجوری کا ڈھا نچہ بہت اچھا ہے اسے توانائی فراہم کرنے کے لئے قابل بھروسہ ذرائع استعمال کئے جا رہے ہیں۔اسے روزانہ فلائٹ کے ذریعے ایندھن پہنچانے کے ساتھ مقامی طور پر بھی کوئلے کی فراہمی جاری رہتی ہے یہ تجوری پہاڑ میں ۱۲۰ میٹر گہرائی میں واقع ہے جس کی وجہ سے یہ قدرتی طور پر ٹھنڈی رہتی ہے اور اگر کسی وجہ سے اس کا برقی اور مکینیکل کولنگ سسٹم کام چھوڑ دے تو بھی تجوری میں رکھے ہوئے ذخیرے کو نقصان پہنچنے کے بہت کم امکانات ہیں یہ جگہ سطح سمندر سے ۱۳۰ میٹر کی بلندی پر ہے اور اس میں موجود یہ منفرد تجوری بیرونی طور پر ماحول میں ہونے والی تبدیلیوں کے اثرات سے محفوظ ہے۔بہت سوچ بچار کے بعد سوالبارڈ کے علاقے کا انتخاب کیا گیا جہاں ناروے نے ۹ ملین امریکی ڈالرز کی لاگت سے یہ تجوری تعمیر کی۔
تجوری کی عمارت کے صدر دروازے سے تجوری کے پورٹل تک کا فاصلہ ۹.۱۴۵ میٹرز ہے جہاں ہر تجوری کی چوڑائی ۵.۹ سے ۱۰ میٹرز تک،لمبائی ۲۷ میٹرز جبکہ اونچائی ۶ میٹرز ہے۔اس تجوری پر سالانہ ۳۰۰۰۰۰ڈالرز کے اخراجات آ رہے ہیں ۔سال کے ۳۶۵ دن یہ تجوری مقفل رہتی ہے اسے صرف اسی وقت کھولا جاتا ہے جب اس میں کوئی نیا ذخیرہ محفوظ کرنے کے لئے لیا جاتا ہے۔عام طور پر ایسا سال میں صرف تین بار ہوتا ہے کسی بھی ہنگامی صورت حال میں برقی توانائی کی فراہمی متاثر ہونے کی وجہ سے نمٹنے کے لئے یہاں بیک اپ جنریٹر موجود ہیں جو تجوری کا درجہ حرارت منفی سات ڈگری سینٹی گریڈ تک برقرار رکھ سکتا ہے جبکہ عام حالات میں یہاں کا درجہ حرارت منفی ۱۸ ڈگری سینٹی گریڈ رہتا ہے۔یہاں کا کولنگ سسٹم نمی اور درجہ حرارت کو اس طرح برقرار رکھتا ہے کہ یہاں پر صدیوں تک بیجوں کو محفوظ کیا جا سکتا ہے۔تاہم کچھ ایسی فصلیں بھی ہیں جنہیں اس تجوری میں محفوظ نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ اس کے لئے مختلف نوعیت کا ماحول درکار ہیان فصلوں میں سیب اور کیلا سب سے زیادہ قابل ذکر ہیں۔
اس تجوری اور اس میں رکھے ہوئے بیجوں کے خزانے کو محفوظ رکھنے کے لئے یہاں پر ڈیجیٹل کیمروں،درجہ حرارت مانیٹر کرنے والے آلات اور دیگر ڈیوائسز اور ٹیکنالوجی سے لیس سسٹم نصب کیا گیا ہے جس کے ذریعے نگرانی کرتے ہوئے محفوظ بیجوں کو صدیوں تک قابل استعمال رکھا جا سکتا ہے۔
اس بڑی سی عمارت میں وئیر ہاؤس کی طرح کے شیلفز لگے ہوئے ہیں ،جن پر حروف تہجی کے اعتبار سے ڈبوں میں بند بیج رکھے جاتے ہیں۔ان ڈبوں کو یہاں محفوظ کرنے کا طریقہ بہت سخت رکھا گیا ہے،یہاں بیج اس صورت میں رکھے جاتے ہیں جب انہیں کوئی دوسرا ملک ڈبے میں سر بمہر کر کے بھیجتا ہے ۔ان ڈبوں کو اسی طرح تجوری میں حروف تہجی کے اعتبار سے رکھ دیا جاتا ہے اور انہیں صرف وہی دوبارہ کھول سکتا ہے جس نے انہیں جمع کرایا ہو ۔تاہم اگر نمی یا درجہ حرارت میں تبدیلی کی وجہ سے بیجوں کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو تو ماہرین کی ٹیم اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے موجود ہے۔
ماہرین نے اس بات کا بہت پہلے ہی اندازہ لگا لیا تھا کہ جس تناسب سے دنیا کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے ،اس کے مقابلے میں خوارک کی فراہمی کے ذرائع بہت کم ہیں اور اگر یہی حالات اسی طرح قائم رہتے ہیں تو وہ وقت دور نہیں جب دنیا بھر میں غذائی اجناس کی شدید قلت ہو جائے گی۔اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے ابھی سے منصوبہ بندی کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ایسے میں سوالبارڈ کی طرح کی بیجوں کی عالمی تجوری یقینابہت اہمیت کی حامل ہے۔ 
------------------------------------------------------------------ 
قدیم شاہراہِ ریشم کا نیا سفر
۱۵ فروری ۲۰۱۶ء کو ایک ٹرین چین کے مشرقی صوبے،ژی جیانگ سے ۵۰۰،۹ کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے بہ راستہ قازقستان و ترکمانستان،ایران کے دارالحکومت،تہران کے ریلوے اسٹیشن پہنچی۔اس کے ۳۲ کنٹینرز میں چینی سا مان موجود تھا۔قدیم شاہراہ ریشم پر نئی تعمیر ہونے والی ریلوے لائن پراس مال گاڑی نے یہ فاصلہ ۱۴ روز میں طے کیا۔اس تاریخی موقع پر اعلیٰ ایرانی حکام کے علاوہ ایران میں موجود چینی سفیر بھی ریلوے اسٹیشن پر منعقد تقریب میں موجود تھے۔اس موقعے پر ایرانی ریلوے کمپنی کے سر براہ،محسن آقائی کا کہنا تھا کہ’’چین کی بندرگاہ سے ایرانی بندرگاہ،بندر گاہ عباس تک کے سفرکے مقابلے میں ٹرین کے سفر کا دورانیہ ۳۰ روز کم ہے اور ہم اس ٹرین کا روٹ مستقبل قریب میں یورپ تک لے جائیں گے،جس سے ایران کی آمدنی میں اضافہ ہو گا۔فی الحال یہ ٹرین مہینے میں ایک بار چلے گی اور بعد ازاں، ضرورت کے مطابق اس کی آمدورفت میں اضافہ کیا جائے گا۔عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق،اس وقت ایران کی مجموعی بیرونی تجارت میں ایک تہائی سے زیادہ حصّہ چین کا ہے۔چین ایرانی تیل کا سب سے بڑا خریدار ہے۔
چین کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس نے ہمیشہ جنگوں کی بجائے صنعت و تجارت پر زیادہ توجہ دی ۔چین کے حکم رانوں نے آج سے تقریباً ۲۲۰۰ برس قبل شاہراہ ریشم سے ایران ،شام،صومالیہ ،ہندوستان ،یونان اور روم تک تجارت کی۔اس شاہراہ کا نام ریشم اس لئے پڑا کہ چین ہی نے ریشم دریافت کیا تھا اور وہ اس سے خوبصورت ملبوسات تیار کرتا تھااور صدیوں تک چین نے اس پر اپنی اجارہ داری قائم رکھی۔اپنی تجارتی راہ داری کو محفوظ رکھنے، سرحدوں کو تا تاریوں اور منگولوں کے حملوں سے بچانے اور ریشم کے راز کو پوری دنیا سے پوشیدہ رکھنے کے لئے ۲۲۰ قبل مسیح میں بان سلطنت نے عظیم دیوارِ چین کی تعمیر شروع کی،جو وقفے وقفے سے جاری رہی اور اس کا بڑا حصّہ پانچویں صدی سے آٹھویں صدی کے درمیان مکمل ہوا۔اُس وقت تک دنیا بھر کے بادشاہوں اور امراء کے لئے صرف چین سے ہی ریشم جاتا تھا۔چینی حکم رانوں کے لئے دیوار چین اس لئے بھی اہم تھی کہ چین میں باہر سے داخل ہونے والے ہر شخص پر نظر رکھی جاتی کہ کہیں وہ ریشم کا راز چین سے باہر نہ لے جائے اور صدیوں تک چینی اس میں کامیاب بھی رہے۔یاد رہے کہ دیوار چین چاند سے نظر آنے والی انسانی ساختہ واحد شے ہے۔اس سرحدی دیوار کی مجموعی لمبائی ۸۸۵۰ کلو میٹر ہے جب کہ ذیلی دیواروں سمیت اس کی کل لمبائی ۲۱۱۹۶ کلو میٹر بنتی ہے۔لیکن پھر یورپ سے دو افراد پادریوں کے روپ میں چین آئے اور انھوں نے برسوں چین میں قیام کیا۔بہ ظاہر وہ عیسائیت کی تبلیغ کرتے تھے،لیکن واپس جاتے ہوئے وہ ریشم کے کیڑے کو اپنی عصا میں چھپا کر لے گئے اور پھر ریشم بنانے کا راز پوری دنیا بھی جان گئی۔
آٹھویں صدی عیسوی کے بعدمسلمانوں کو عروج حاصل ہوا اور وہ دنیا کی تجارت پر چھانے لگے۔لیکن شاہراہ ریشم کی اہمیت پھر بھی کم نہ ہوئی۔جب سولہویں صدی عیسوی میں یورپی اقوام کی جانب سے نو آبادیاتی نظام کا آغاز ہوا تو رفتہ رفتہ ایشیا اور افریقا کے تمام ممالک ان مغربی اقوام کے غلام بنتے گئے،جبکہ امریکا،کینیڈا اور آسٹریلیا پر بھی انہی کی حکمرانی قائم ہو گئی۔۱۸۳۰ء میں برطانیہ میں پہلی ٹرین چلی تھی اور پھر اس کی افادیت فرانس اور امریکا کو خانہ جنگی کے دوران معلوم ہو گئی تھی،لیکن پہلی جنگ عظیم کے دوران ریلوے کی اہمیت میں یک دم اضافہ ہوا اور پھر اس کے فوراً بعد ہی ریلوے کی اہمیت میں کمی آنے لگی،لیکن آج ایک سو سال بعد ایک مرتبہ پھر ریلوے کی اہمیت پوری دنیا میں بڑھتی جا رہی ہے۔
اگر چہ ریلوے لائنز کو زیر زمین بچھانے کا عمل دوسری جنگ عظیم سے قبل ہی شروع ہو گیا تھا،لیکن اس کے بعد ترقّی یافتہ ممالک نے اس طرز تعمیر کو ریلوے کے حوالے سے اصول بنا لیا اور اس طرح روڈ ٹریفک کی وجہ سے پیدا ہونے والی فضائی اور شور کی آلودگی پر کنٹرول کر لیا گیا۔اس کے بعد جاپان نے نہایت کامیابی سے ٹرینوں کی رفتار میں اضافہ شروع کیا اور پھر الیکٹرک ریلوے انجنز کی وجہ سے دھویں سے بھی نجات مل گئی۔بد قسمتی سے جب پوری دنیا بھر میں ریلوے کا شعبہ ترقی کر رہا تھا،پاکستان میں اس شعبے میں زوال آگیا۔۱۹۷۰ء کی دہائی سے پاکستان ریلوے کا خسارہ بڑھتا ہی چلا گیا،حالاں کہ جنوبی ایشیا میں پاکستان وہ پہلا ملک تھا جس نے الیکٹرک ٹرین کا آغاز کیا تھااور لاہور سے خانیوال تک برقی ٹرین چلائی گئی تھی۔
اقتصادی اور عسکری اعتبار سے پاکستان کی اسٹرٹیجک پوزیشن ایران،بھارت، اور افغانستان سے کہیں زیادہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ چین اور امریکا دونوں ہی پاکستان کو اپنا اسٹرٹیجک پارٹنر رکھنا چاہتے ہیں۔پاکستان کی خارجہ پالیسی میں چین کے حوالے سے اس وقت تبدیلی آئی ،جب ۱۹۶۲ء میں چین، بھارت تنازعات کی بنیاد پر ان دونوں ممالک میں سرحدی جھڑپیں ہوئیں۔اس موقعے پر پاکستان اور چین کے تعلقات بہتر ہو گئے اور اس کے بعد پاکستان نے اپنی خارجہ پالیسی کو پاک،امریکا تعلقات کے اعتبار سے قدرے متوازن رکھنے کی کوشش کی،جس کو بھارت کی شہ پر امریکا نے ابتدائی برسوں میں شکوک وشبہات کی نظر سے دیکھا،لیکن جب ایوب خان کے دورِ حکومت ہی میں پاکستان نے امریکا اور چین کے درمیان تعلقات کی بہتری کے لئے مثبت کردار ادا کیا اوع اس وقت کے وزیر خارجہ بھٹو نے امریکی حکام کو اس بات پر قائل کیا کہ چین،امریکا تعلقات امریکا کے مفاد کے ساتھ عالمی امن اور ترقی کے لئے بھی بہتر ثابت ہوں گے،تو پھر ۱۹۷۱ء میں امریکا کے وزیر خارجہ کسنجر نے پاکستان ہی سے چین کا خفیہ دورہ بھی کیا۔اب صورتحال یہ ہے کہ چین گزشتہ ۵۰ برسوں میں کسی بڑے عالمی تنازعے میں اُلجھے بغیر تیز رفتاری سے ترقی کر کے دنیا کی ایک اہم معیشت بن گیا ہے اور اب وہ اپنی حیثیت کو ہمیشہ کے لئے مستحکم کرنا چاہتا ہے۔
چین کے اقتصادی استحکام کے لئے ضروری ہے کہ اس کے کارخانوں تک ایندھن اور خام مال کی ترسیل بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رہے اور پھر اس کی مصنوعات بھی آسانی سے کم لاگت اور کم وقت میں دنیا کے ممالک تک پہنچتی رہیں اس اعتبار سے پاکستان چین کے لئے اہم ہے۔گوادر کی بندرگاہ کے بعداب سی پیک یعنی چین،پاکستان اقتصادی راہ داری منصوبے کے تحت ریلوے کی اہمیت کو بھی چین نے تسلیم کیا ہے اور کاشغر سے گوادر تک ریلوے منصوبہ بھی اس کی نظر میں اتنا ہی اہم ہے،جتنی کہ شاہراہیں ۔
-------------------------------------------------------------------------- 
سیاحوں کی جنت......وادیِ کاغان
بیش بہا معدنیات اور جنگلات کی دولت سے مالا مال،صوبہ خیبر پختون خواہ کے شمالی علاقہ جات کے تقریباً تمام ہی مقامات قدرتی مناظر،برف پوش پہاڑوں،گلیشیئرز اور بہتی آبشاروں کا مسکن ہیں۔ان ہی وادیوں میں ایک وادی،وادیِ کاغان بھی ہے،جس کا شمار وہاں کے دل فریب اور پر کشش مقامات میں ہوتا ہے۔یہیں دنیا کی خوبصورت ترین جھیل سیف الملوک کے علاوہ لالہ زار کے دل فریب مناظر پر مشتمل برف پوش پہاڑوں کاوسیع سلسلہ بھی ہے۔اس وادی کا ایک مشہور شہر ،بالا کوٹ اکتوبر2005ء کے تباہ کن زلزلے کے بعد مکمل طور پر تباہ ہو گیا تھا،جسے از سرِنو تعمیر کر کے اس کی اصل تصویر کسی حد تک بحال کر دی گئی ہے۔دوسری طرف ناران،کاغان روڈ کو بھی دوبارہ تعمیر کر کے وسیع کیا گیا ہے۔سیاحوں کی جنت ،وادی کاغان میں برف پوش پہاڑوں اور آب شاروں کے درمیان ۹ چھوٹی بڑی جھیلوں کا شمار دنیا کی حسین ترین جھیلوں میں ہوتا ہے،جن کی خوبصورتی،دلکشی اور مسحور کن فضا کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ان خوش کن مناظر اور دلکش نظاروں سے لطف اندوز ہونے کے لئے ملک بھرہی سے سیاحوں کی ٹولیوں کی ٹولیاں نہیں پہنچتیں،بلکہ بیرونِ ملک سے بھی بڑی تعدادمیں لوگ آتے ہیں۔سیاحوں کے قیام کے لئے خوبصورت ریسٹ ہاؤسسز اور ہوٹلز موجود ہیں۔تاہم،زیادہ تر سیاح ہوٹلزاور مسافر خانوں میں قیام کے بجائے ٹینٹوں اور خیموں پر مبنی’’ٹینٹ ویلیج‘‘ میں قیام کو ترجیح دیتے ہیں۔وادی کاغان کی حدود بالا کوٹ کے بعد ہی شروع ہو جا تی ہے اور بالا کوٹ سے وادیِ کا غان تک کا سفر بذریعہ جیپ،کاریا ویگن کیا جا سکتا ہے۔وادی کے صرف پانچ فیصد حصے پر کاشت کاری ہوتی ہے،جن میں پیاز،گندم،مکئی ،چاول،مٹر وغیرہ شامل ہیں۔جب کہ مختلف پھلوں کے باغات بھی جا بجا نظر آتے ہیں۔اس کے علاوہ وادی کے زیادہ تر حصے دیودار،چیڑ ،کیکراور بیارو کھپل سے بھرے پڑے ہیں۔
وادی کاغان کی سب سے اہم اور مرکزی سیاحت کی وادی،وادیِ ناران ہے،جسے وادیِ کاغان کا دل،خوابوں اور پریوں کا سحر انگیزدیس بھی کہا جاتا ہے۔اگر چہ بالا کوٹ سے ناران تک کا راستہ کافی حد تک پکا ہے،لیکن بعض مقامات پر لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہیں۔دریائے کنہار کے سنگ سنگ،بالا کوٹ سے وادی ناران تک کا سفر تقریباً چار گھنٹوں پر محیط ہے۔ناران میں داخل ہوتے ہی برف پوش پہاڑوں اور گلیشیئرز پر نظر پڑتی ہے۔دریائے کنہار پر لکڑی کے پُل بنائے گئے ہیں،جو چھوٹے چھوٹے قصبوں کو ایک دوسرے سے منسلک کرتے ہیں،مقامی باشندوں کے بنائے گئے لکڑی کے ان پُلوں کی مضبوطی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان سے گاڑیاں بھی باآسانی گزر جاتی ہیں۔جھیل سیف الملوک کا گیٹ وے ناران ہی ہے کہ یہیں سے جھیلوں کا آغاز ہو جاتا ہے۔اس کے ایک طرف بابو سر پاس تو دوسری طرف لالہ زارجیسے حسین علاقے ہیں۔مقامی افراد اپنی ضروریات کے لئے فصلیں اگاتے ہیں،تاہم جب سردیوں میں زمین برف سے ڈھک جاتی ہے اور فصل کی پیداوار نا ممکن ہو جاتی ہے،تو ٹراؤٹ مچھلی کا کاروبار عروج پر پہنچ جاتا ہے۔سیاح بھی ٹراؤٹ مچھلی کا شکار کرتے ہیں جس کے لئے خصوصی پرمٹ لینا ضروری ہے۔
وادی ناران کی آب وہوا انتہائی دلکش ہے،سردیوں کا موسم پوری وادی کو برف کی چادر میں چھپا لیتا ہے مگر گرمیوں کا موسم شروع ہوتے ہی برف پگھلنے لگتی ہے تو ہر طرف ہریالی پھیل جاتی ہے۔وادی کا غان کی اصل اہمیت ناران ہی کے سبب ہے کہ سیاحت کی غرض سے وادی کاغان آنے والے زیادہ تر سیاح ناران پہنچنے کے بعد وہیں ڈیرے جما لیتے ہیں کہ یہیں جھیل سیف الملوک،جھیل لولو پت سر،جھیل دودی پت سر اور لا لہ زار جیسے دلفریب مقامات ان کے منتظرہوتے ہیں۔ہر سال ملک بھر،بالخصوص کراچی،لاہور اور پنجاب کے دیگر شہروں سے بھی لاکھوں کی تعداد میں سیاح وادی کاغان اور ناران کا رخ کرتے ہیں اور یہاں ساڑھے دس ہزار فٹ اونچائی پر واقع جھیل سیف الملوک اور لا لہ زار سیاحوں کی توجہ کا خاص مرکز ہیں۔اسی لئے آنے والے ۹۰ فیصد سیاح سب سے پہلے جھیل سیف الملوک ہی کا رخ کرتے ہیں،حالانکہ وادی ناران سے جھیل تک کا سفر انتہائی دشوار گزاراور پیچیدہ ہے۔برف کے گلیشیئرز سے گزرتے وقت جیپوں کی سواری خاصی پر خطر ہو جاتی ہے۔ایسے میں گھوڑے پر سوار ہو کر برف پوش چٹانوں سے گزر کر جھیل تک پہنچنا کسی ایڈونچر سے کم نہیں۔اور پھر جب برف پوش پہاڑوں کے دامن میں برف کی چادر اوڑھے اس جنت نظیر جھیل پر نظر پڑتی ہے تو گویا سیاح ششدررہ جاتے ہیں۔یہاں کا موسم عموماً خوشگوار ہوتا ہے،ٹھنڈی ہوائیں چلتی رہتیں ہیں۔دوسری طرف پہاڑی چوٹیوں کے سنگم پر واقع’’لالہ زار‘‘کے دلکش و دل فریب مناظر دیکھ کر انسان کچھ دیر کے لئے مبہوت سا ہو جا تا ہے

Fareena Aslam Wirting pieces

Fareena Aslam
2k16/MmC/21
M.A pervious Improve
Investigative report
پرائیویٹ اور غیر قانونی اسکول
ایک خیمہ جس میں ایک طرف سے چند طالبعلم بستہ اٹھائے داخل ہورہے ہیں جبکہ دوسری طرف سے چند گدھے بستہ اٹھائے بائر نکل رہے ہیں. یہ خیمہ ویب پر پاکستان کے تعلیمی نظام کو دیکھتے ہوئے بنایا گیا ایک کارٹون ہے جو کافی مشہور بھی ہورہا ہے اس خیمے کے اوپر لکھا ہے 
"PAKISTAN EDUCATION SYSTEM"
ٖٓپاکستان کو بننے ہوئے ۶۸ ؁ سال ہو چکے ہیں لیکن ہمارا تعلیمی نظام بہت خراب ہے ہمارے طالبعلم ابھی تک دد کشتیوں پر سوار ہیں جن میں سے ایک اردو اور ایک انگریزی ہے ان دو کشتیوں پر سوار ہونے کا نتیجہ یہ ہے کہ نہ تو ہمارے طالب علموں کی اردو اچھی ہے اور نہ ہی انگریزی اسکول زیادہ تر گورنمنٹ کے ماتحت ہیں جہاں ڈنڈوں کے سائے تلے تعلیم دی جاتی ہے جس کی وجہ سے طلباء اسکول جانے میں گھبراتے ہیں اور طرح طرح کے بہانے کرکے چھٹی کو ترجیع دیتے ہیں بہانے بناکر چھٹی کرنے میں کامیاب ہونے کے بعد اسے ٹھنڈی اور سکون کی سانسیں بھرتے ہیں۔ جیسے کسی خوف کا بڑا سایہ ان کے سر سے ہٹا دیا گیا ہو۔ اگر ہم پرائیویٹ اسکول کو دیکھیں تو وہاں جو طلبا میٹرک اور انٹر کے امتحان میں پاس ہوجاتے ہیں وہ اپنے ہی اسکول میں جاکر استاد بن جاتے ہیں اگر نظام تعلیم اسی طرح دن بہ دن خراب ہوتا گیا تو شاید ہی یہ ملک پاکستان کبھی ترقی کر پائیگا کیونکہ یہ قول بہت مشہور ہے۔
طلباء کسی بھی قوم کے مستقبل کا قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں۔
گورنمنٹ اور پرائیویٹ اسکول کی مثال ہم اس طرح دے سکتیے ہیں کہ کچھ دن قبل انٹرنیٹ پر ایک تصویر میں دکھایا جا رہا تھا دو گھروں کو ایک ساتھ دیکھایا جا رہا تھا ۔جس میں تعلیمی نظام صاف واضح ہوگیا۔ایک گھر پرائیویٹ اسکول کے استاد کا تھاجو بلکل ٹوٹا پھوٹا اور بری حالت میں تھا۔جبکہ دوسری جانب ایک گورنمنٹ اسکول کے استاد کا گھر تھا ۔جو بہت ہی عالیشان ہونے کے ساتھ ساتھ ہر سہولت سے بھرپور تھا۔ اس تصویر کو دیکھانے کا مطلب بلکل صاف ہے کہ گورنمنٹ اسکول میں استاد محنت کرنے کو ترجیع نہ دے کر صرف پیسوں پر عیش کرنے کو بڑی بات سمجھتے ہیں جبکہ اس کے برعکس پرائیویٹ اسکولوں کا نطام بلکل مختلف ہے جہاں اساتزہ محنت کر کے اپنی قابلیت کے بلبوتے پر پیسے کماتے ہیں۔یہ پاکستان کے تعلیمی نطام کی ایک چھوٹی سی جھلک ہے اگر اسی طرح پورے نطام پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہاں سب بڑے سے بڑا ہو یا چھوٹے چھوٹا عہدیدار صرف اپنی جیب بھاری کرکے عیش میں لگا ہے۔ان سب کو معصوم بچوں کے مستقبل کی کوئی پرواہ نہیں ہے بچوں کے خراب ہوتے مستقبل کا زمہدار ہے کون؟ اس کا جواب اگر والدین سے لیا جائے تو وہ اساتزہ کا نام لیکر جان چھٹا لیتے ہیں اور اساتزہ سے یہ سوال کیا جائے تو وہ اپنے سربراہوں کا نام لیکر اپنا دامن صاف کر لیتا ہے اور اگر ان سربراہوں سے پوچھا جائے تو وہ سیدھا حکومت کو الزام دے کر خود کو کرپشن مافیہ سے پاک و صاف کر لیتے ہیں اپنی غلطی ماننے کو کوئی تیار ہی نہیں ہے۔۔

غیر قانونی اسکولوں کی وجوہات 249قانون اور اصول وضوابط 249کتابوں کی چھپائی کا عمل249غیر تجربہ کار اساتزہ اور غیر قانونی اسکول ؂وں کی تعداد کے بارے میں اس رپورٹ میں آگے تفصیل سے بتایا گیا ہے۔
------------------------------------------------------------------------------------------------------- 

Fareena Aslam
2k16/MmC/21
M.A pervious Improve
قانون اور اصول وضوابط
ڈائریکٹوریٹ کے ریکورڈ کے مطابق پاکستان میں 1395پرائیویٹ اسکول ہیں ان میں سے تقریبا آدھے اسکول حیدرآباد میں ہیں جس میں ۳۵۱کے قریب اسکول غیر قانونی ہیں جو اب تک رجسٹرڈ نہیں کروائے گئے۔ان اسکولوں کے رجسٹرڈ کروانے کی کیا وجوہات ہیں ۔کیونکہ ہر جگہ کرپٹ مافیہ کام کررہا ہے؟ کیونکہ اس نظام کے خلاف کوئی اقدامات نہیں ہوئے؟

پرائیویٹ اسکول کی میڈم صابرہ سے بات کرنے پر پتہ چلا کہ غیر قانونی اسکولوں کا زیادہ رجحان اس لئے بھی ہوتا ہے کیونکہ ایک اسکول جو رجسٹرڈ ہے دوسرا اسکول اسی کے نام پر اپنے اسکول کے طلباء کے نام آگے دے کر ان کو بورڈ کے امتحانات دلوارہے ہیں اور وہ اسکول جو دوسرے اسکول کی مدد کررہا ہوتا ہے وہ اپنا فائدہ لے لیتا ہے اس طرح ان لوگوں کو اپنے اپنے اسکول رجسٹرڈ کروانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی اس کے علاوہ میڈم صابرہ نے چیک اینڈ بیلینس کے نظام کو خراب بتاتے ہوئے کہا ہے کہ یہاں کوئی دیکھنے والا نہیں ہے جس کی وجہ سے ہر کوئی اپنی من مانی کر رہا ہے .بہت سے قانون اور قواعدوضوابط آئے ہیں لیکن ان پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوا. بس قانون آتے ہیں شور مچتا ہے اور کچھ ونوں میں وہ بھی ختم ہو جاتا ہے مانو جیسے کبھی کوئی قانون پاس ہی نہ ہوا ہو . تو ایسی حالات میں ان قانون پر عمل کرنا تو بہت ہی مشکل ہے۔

صوبائی گورنمنٹ انسپیکشن ڈائریکٹوریٹ اور پرائیویٹ اسکولوں کی رجسٹریشن جنوری ۲۱۰۲ میں حیدرآباد میں قائم کی گئی اور پھر وہ آہستہ آہستہ حیدرآباد کے ۰۱ ضلعوں میں بھی پھیل گئی۔ اسکولوں میں سال میں ایک دفعہ انسپیکشن ٹیم آتی ہیں چاہے وہ گورمینٹ اسکول ہوں یا پرائیویٹ ۔اور پھر دہ آفس میں بیٹھ کر چند پیسے لے کر اور چائے بسکٹ کھا کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنے فرائض انجام دے دئییاور اٹھ کر چلے جانا پسند کرتے ہیں۔

۱۰۰۲ اور ۵۰۰۲ میں پرائیوٹ اسکول سندھ پرائیوٹ ایجوکیشنل ادارے میں تبدیل ہوگئے اور ۳۱۰۲ میں ایک ایکٹ پاس کیا گیا کہ بچوں کو مفت اور ضروری تعلیم دلانا ان کا حق ہے۔ سندھ اسمبلی میں فروری میں ایک ایکٹ پاس کیا گیا کہ اگر کوئی بندہ بغیر رجسٹریشن کے کوئی اسکول چلائے گا تو اس پر پانچ لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا جاہے گا اور جیل کی سزا دی جائے گی یا پھر یہ دونوں سزا بھی دی جا سکتی ہیں. لیکن اس کے بعد بھی اب تک کوئی عمل درآمد نظر نہیں آیا۔

نئے اسکولوں کو کچھ مہینے دئیے جانے ہیں رجسٹریشن کے لیے اگر وہ پھر بھی رجسٹریشن نہیں کرواتے تو ان پر جرمانہ لگتا ہے.ان غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ہے جو بھی قانون آئے ہیں ان پر عمل کتنا کیا گیا؟
گورنمنٹ بوائز ہائی اسکول کے اسسٹینٹ کا کہنا تھا کہ یہ سب قانون دماغی فطور ہیں کیونکہ ان پر عمل تو کوئی کرتا نہیں ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے مطلب اگر کوئی قانون پر پابندی کرتا بھی ہے تو دوسروں کو دیکھ کر وہ بھی عمل کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ گائیڈ کے خلاف کہتے ہوئے کہا کہ گائیڈ بند ہوجانی چاہئیں تاکہ طلباء کا رجحان نقل کی طرف سے ہٹ کر محنت کی طرف آئے۔

قانون اور قواعدوضوابط کے اصول کے لئے بہت سے ایجوکیشن اداروں پر چھاپے بھی مارے گئے لیکن ان چھاپوں کے بعد بھی ان کو کوئی سزا نہیں دی گئی۔جس کی وجہ سے ایسے لوگوں کو برائی کا حوصلہ ملا اور آگے بڑھ چڑھ کر اور غلط راستے اختیار کئے۔

مزید پاکستان کا یہی حال رہا تو قوم کو تاریکی کی طرف جانے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ طلبہ جو اس قوم کا قیمتی اثاثہ ہیں ان کے مستقبل کو مزاق سمجھ رکھا ہے۔
Fareena Aslam
------------------------------------------------------------------------------------------------------- 

Fareena Aslam
2k16/MmC/21
M.A pervious Improve
Profile
ڈاکٹر لیاقت راجپوت (محنت کے دم پر اپنا لوہا منوایا)ڈاکٹر لیاقت راجپوت ۳ جنوری ۱۹۵۳ کو ٹنڈوالہیارمیں پیدا ہوئے۔بچپن سے ہی تعلیم کے شوقین تھے ابتدائی تعلیم دارالعلوم پرائمری اسکول ٹنڈوالہیار سے حاصل کی۔اعلی تعلیم کے لئے میونسپل ہائی اسکول میں داخلہ لیا اور پورے شہر میں پہلی پوزیشن حاصل کی ۔ پہلی پوزیشن حاصل کرنے پر حکومت کی طرف سے ایک سال کی اسکالرشپ دی گئی۔گھر والے آپ کی زندگی کا ایک واقعہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ والدہ نے کسی ضروری کام کی وجہ سے اسکول جانے سے منع کیا تو رونے لگے اور اسکول جانے کی ضد کرنے لگے اور اپنی ضد منوا کر رہے ۔تعلیم حاصل کرنے کے شوق اور ڈاکٹر بننے کی لگن نے آپ کو گھر بیٹھنے نہیں دیا اور اپنا شہر چھوڑ کر حیدرآباد کا رخ کیا ۔حیدرآباد میں آتے ہی لیاقت میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کی ڈگری مکمل کی اور جرنل پریکٹس کے ڈاکٹر بنے۔مزید تعلیم حاصل کرنے کے لئے ملک سے باہر جانا چائتے تھے لیکن گھریلوں مصروفیات کی وجہ سے نہ جا سکے ۔ڈاکٹر لیاقت راجپوت کے گھر والوں کے مطابق آپ اخلاق کے اعلی درجے پرہیں .والدین کی ہمیشہ خدمات کی ساتھ ہی ساتھ اپنے بہن249 بھائیوں سے بھی ہمیشہ نرمی سے پیش آئے۔ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہونے کے باوجود بھی سب کی عزت کی اور ہمیشہ ان کا خیال رکھا۔ خاندانی زبان اردوہے. لیکن آپ کو انگلش249سندھی249 249مارواڑی
غرض مقامی تمام زبانوں پر عبور حاصل ہے. ۱۹۶۸ ؁ میں شادی ہوئی . آپ نے اپنی شادی شدہ زندگی اور پڑھائی کی زمیداریوں کو ساتھ ساتھ پورا کیا۔ آپ کی ۳ بیٹیاں اور ۱یک بیٹا ہے۔ٖآپ نے بیوی کے انتقال کے بعد بچوں کی اکیلے ہی دیکھ بھال کی بیٹیوں کو اچھی تعلیم دی اور بیٹے کو ڈاکٹر بنایا۔ آپ صبروہمت کے پیکر ہیں۔ آپ نے ڈاکٹر کی پڑھائی مکمل کرنے کے بعد لیاقت میڈیکل کالج میں طلبہ کو پڑھانا شروع کیا اس کے بعد ۱۷ گریڈ کی گورنمنٹ نوکری ملی اور آہستہ آہستہ مختلف مراحلات سے گزرتے ہوئے ترقی کی اور آخر کار اپنی محنت سے ۲۰ گریڈ تک پہنچے اور پولیس سرجن حیدرآباد میں اپنی خدمات انجام دے کر گورنمنٹ نوکری سے ریٹائرمینٹ لے لی ۔ 
۱۹۸۰ میں اپنے والد عبدالرزاق کے نام سے اپنی ایک کلینک کھولی جس میںآج بھی اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔روز تقریبا ۰۵ سے ۰۰۱ تک مریضوں کو دیکھتے ہیں. مریضوں کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر لیاقت راجپوت کے علاج میں شفاء ہے ،آپ میں مریضوں کو حوصلہ دینے کی صلاحیت موجود ہے آپ کے اخلاق سے اور آپ کے علاج سے مریضوں کو جلد فائدہ ہوتا ہے۔
آپ حیدرآباد کی ایک بہت مشہور اور باوقار شخصیت ہیں.لوگ دور دور سے آپ کے پاس علاج کے لئے آتے ہیں. آپ کا علاج بہت فائدہ مند ہے. ڈاکٹر لیاقت راجپوت کو ان کی اعلی کارکردگی پر مختلف قسم کے اعزازات بھی ملے ہیں . آپ کو حج کی سعادت بھی نصیب ہوئی آپ ایک محنت کش انسان ہیں جو لوگوں کے کام آنے کے لیے اپنی ہر ممکن کوششوں میں مصروف رہتے ہیں . لوگ آپ میں موجودصلاحیتوں سے واقف ہیں اور آپ پر پورا یقین بھی کرتے ہیں. آپ کے پاس مسائل لے کر آتے ہیں تا کہ آپ ان کا کوئی حل نکال سکیں . آپ حیدرآباد کے علاوہ بھی دوسرے شہروں میں اپنی خدمات انجام دیتے ہیں اور اس سے قبل بھی بہت بار دے چکے ہیں . آپ نے اپنی پوری زندگی فلاح وبہبود کے کاموں کے لیے وقف کر رکھی ہے. 
. ڈاکٹر لیاقت راجپوت میں بہت سی خداداد صلاحیتیں موجود ہیں . آپ دائرے میں رہ کر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے مالامال ہیں . آپ کو ایک سلجھا ہوا شخص کہنا غلط نہ ہوگا.
------------------------------------------------------------------------------------------------------- 
Fareena Aslam
2k16/MmC/21
M.A pervious Improve
Interview

ارسلان مغل انٹرویو دینی و دنیاوی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ بے زبانوں کی تعلیم کی فکر

ارسلان مغل کا تعلق کوٹری شہرکے ایک سادہ خاندان سے ہے ارسلان مغل کی پیدائش 1986ء میں کوٹری سے چند منٹ کے فاصلے پر ایک گاؤں جو کہ کارو کھو میں ہوئی ان کے والد کا نام گلزار احمد مغل ہے جو کہ پی۔آئی۔اے ہائی اسکول کوٹری کے پرنسپل ہیں، والد کی دینی تعلیم میں دلچسپی رکھنے کے باعث انہوں نے اپنے بیٹے کو مدرسے میں داخلہ دلوایااور دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم بھی حاصل کی آپ اس معاشرے کے خصوصی افراد کے لیے دل میں بہت درد رکھتے تھے اور آپ ان افراد کے لیے کچھ خاص کرنا چاہتے تھے۔ 
سوال : آپ نے اپنی تعلیم کہا ں سے حاصل کی؟
جواب: میں نے اپنی تعلیم انٹر میڈیٹ تک مدرسے میں حاصل کی اور اس کے ٖبعد کالج سے پرائیویٹ بی۔اے کیا ۔
سوال: سُنا ہے آپ گونگوں کو بھی تعلیم دیتے ہیں ؟
جواب: جی ہاں میں نے اپنے ا سکول میں ایک خاص کلاس بنار کھی ہے جس میں گونگوں کو تعلیم دی جاتی ہے اور اس کا مقصد معاشرے میں ان کی پہچان کروانہ ہے ۔
سوال: ایسی کیا وجہ تھی کہ آپ نے گونگوں میں تعلیم کو بیدار کرنے کا فیصلہ کیا ؟
جواب: میں سوچتا ہوں کہ جتنی یہ دنیا ہماری ہے اتنی ہی ان بے زبان (گونگوں) کی بھی ہے کیونکہ تعلیم سب کے لئے ضروری ہے چاہے وہ زبان سے بولنے والے ہوں یا زبان سے گونگے ہوں اس لیے میں نے انہیں بھی تعلیم کی روشنی سے ہمکنار کرنے کا فیصلہ کیا ۔
سوال: آپ گونگے طلباء کا مستقبل کس طرح سے د یکھتے ہیں ؟
جواب :پاکستان کے تقریبا حکومتی اداروں میں خصو صی افراد کے لیے کوٹہ موجود ہے جس سے یہ گونگے طلباء فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور طلباء اپنا مستقبل روشن کر سکتے ہیں ۔ 

سوال : آپ گونگے شاگرد وں اور عام شاگردوں میں کیا فرق محسوس کرتے ہیں ؟
جواب: عام طلباء سے ہم آسانی سے رائے حاصل کر سکتے ہیں لیکن بے زبان طلباء سے ہمیں رائے لینے سے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو بات عام طلباء آسانی سے سمجھ لیتے ہیں وہی بات گونگے طلباء کو اشاروں سے سمجھنے میں کافی وقت لگتا ہے ۔
سوال: آپ لندن کس لئے گئے تھے؟
جواب: میں لندن تین سال کے لئے گیا تھا وہاں اچھی ملازمت مل گئی تھی اور ایک فلاحی تنظیم میں خدمت سر انجام دے رہا تھا۔ 
سوال: لندن میں کوئی ایساواقعہ جسے آپ یاد کر کے دکھی ہو جاتے ہوں؟
جواب: لندن میں میری ایک دوست تھی جس کا نام جولی تھا جو میرے ساتھ کام کرتی تھی اورہمیشہ میری مدد کرتی تھی لیکن کسی حادثہ کہ سبب و ہ اب اس دنیا میں نہیں رہی جسے یاد کرکے میں اکثر رنجیدہ ہو جاتا ہوں۔
سوال: آپ پاکستان کی یوتھ کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟
جواب: پاکستان کی یوتھ پاکستان کا مستقبل ہے اور یہ یوتھ پاکستان کو بدلنے کا عزم رکھتی ہے محنت کرے آگے بڑے اور پاکستان کا نام روشن کریں۔ 
------------------------------------------------------------------------------------------------------ 
Fareena Aslam
2k16/MmC/21
M.A pervious Improve
Feature: Gani Park
غنی پارکٹنڈوالہیار میں جہاں سیروتفریح کی بات آتی ہے تو لوگوں کی زبانوں پر غنی پارک کا نام سرفہرست رہتا ہے . ویسے تو ہر خوبصورت صبح کا آغاز مرغوں کی آزان 249 چڑیاؤں کے چہچہانے اور لوگوں کا مسجد کی طرف رخ سے ہوتا ہے لیکن ٹنڈوالہیار کی خواتین اور مرد حضرات کی صبح کا آغاز نماز کے بعد غنی پارک میں ورزش سے ہوتا ہے جہاں صبح سویرے ہی لوگ بہت بڑی تعداد میں نظر آتے ہیں . غنی پارک لڑکوں کے کھیل کے لیے ایک بہترین گراؤنڈ کے طور پر بھی جانا جاتا ہے . سردیوں میں بوڑھے بزرگ دھوپ کھاتے 249 چھوٹے بچے آپس میں کھیلتے اور نوجوان موبائل پر لگے نظر آتے ہیں جبکہ گرمیوں میں نوجوانوں اور بزرگوں کا رش تروتازہ ہوا کے لیے نظر آتا ہے. رات کے ٹائم غنی پارک کو ڈیٹ پوائنٹ بھی کہا جاتا ہے .غنی پارک جس جگہ ہے وہاں کچھ عرصہ پہلے دلدل ہوا کرتی تھی جسے اب بنا کر ایک خوبصورت پارک کا نام دے دیا گیا ہے. شروع میں یہاں بچوں کے لیے جھولے لگائے گئے تھے . جس سے یہ خاص بچوں کی توجہ کا مرکز بنا لیکن آہستہ آہستہ بچوں کی یہ خوشی دور ہوگئی اور جھولے خراب ہونے کی وجہ سے انھیں ہٹا دیا گیا . اس کے علاوہ بھی بہت سی تقریبات ہوتی ہیں جن میں ہر طرح کی پولٹیکل پارٹیز کے جلسے249 جلوس 249 شادی کی تقریبات 249 مینا بازار 249 رنگ برنگے فیسٹیول 249 فٹ بال249 ٹینس249 اور ہر طرح کے گیمز کھیلے جاتے ہیں اور اس کے علاوہ مختلف پروگرامز بڑی تعداد میں منعقد ہوتے ہیں . ریلی میں جانے کے لیے لوگوں کو ایک مخصوص ٹائم دے دیا جاتا ہے اور پھر اسی ٹائم پر ریلی غنی پارک سے ہی نکالی جاتی ہے اور وہیں اختتام پزیر بھی ہوتی ہے. 
بچوں کا کہنا ہے کہ وہاں با قاعدہ کرکٹ کے لیے پچز ہیں جس کی وجہ سے کھیل کا مزہ دوبالا ہو جاتا ہے اس لیے ہم کھیل کے لیے غنی پارک کا رخ کرتے ہیں یہاں تازہ ہوا سے کھیل میں ہار اور جیت کا مقابلہ بہت زبردست ہوتا ہے اور ہم سب دوست یہاں کھیل سے زیادہ .غنی پارک کا مزہ لینے آتے ہیں . کبھی جیتے ایم ۔کیو ۔ایم جیتے تو کبھی راجہ کی آئے گی بارات جیسی مختلف قسم کی آوازوں سے گونجتا ہے جہاں ایک طرف یہ لوگوں کے لیے ایک تفریح کی جگہ ہے وہیں جو لوگ اس کے آ س پاس رہتے ہیں ان کے لیے پریشانی کی بھی وجہ ہے . ان سب کے لیے روز روز کا شوروگل ان کی زندگی میں بہت سی پریشانیوں کا سبب بنتا ہے لیکن زیادہ تر لوگوں کا دھیان اب اس آواز کی طرف نہیں جاتا کیونکہ انھیں اب ان آوازوں کی عادت سی ہوگئی ہے . .غنی پارک کو سرکاری باغ کہنا درست نا ہوگا کیونکہ یہ ڈاکٹر راحیلہ گل مگسی کی بدولت دلدل سے .غنی پارک کی شکل میں منتقل ہوا . کوئی بھی ریلی ہو 249 ۴۱ اگست کا جشن ہو یا نئے سال کی آتش بازیاں سب سے پہلے غنی پارک ہی میں رونق کا سماں ہوتا ہے . 
.غنی پارک میں ٹورنامینٹ ہوتے ہیں جس میں بہت سی ٹیمیں حصہ لیتی ہیں. ٹنڈوالہیار میں ۳ سال پہلے مختلف اسکولوں نے مل کر ٹورنامینٹ رکھا جس میں تمام اسکولوں نے آگے بڑھ کر حصہ لیا لیکن اس سے پہلے اسکولوں نے اپنی ٹیمیں تیار کرنے کے لیے پورے اسکول سے بچوں کو چن چن کر نکالا اور ایک مضبوط ٹیم تیار کی . اور پھر ان کا آپس میں میچ رکھا نویں کلاس کا دسویں کلاس سے اور گیارہویں کلاس کا بارہویں کلاس سے پھر ان چارو ں ٹیموں میں سے جن دو ٹیموں نے فتح حاصل کی ان کا ایک دوسرے سے فائنل کروایا گیا اور فائنل جس ٹیم کا مقدر بنا اس کو اسکول کی طرف سے ددسرے اسکولوں کی فائنل ٹیم سے مقابلے کے لیے بھیجا گیا اور آ خر میں ایگل ہاؤس ہائیر سکینڈری اسکول نے پورے ٹنڈوالہیار سے کامیابی حاصل کی . اور دوسرے نمبر پر فاؤنڈیشن پبلک اسکول نے دوسری پوزیشن حاصل کی . اس میچ کے دوران اسکولوں کی لڑکیاں کالے برکھے میں میچ دیکھنے آتیں تھیں جس سے ٹنڈوالہیار کے لوگوں نے ایک نیا ہی نام نکال دیا تھا ’غنی پارک میں کالے کوے ‘ . اس کے علاوہ رمضانوں میں بھی ٹورنامینٹ ہوتے ہیں اور ٹیمیں دوسرے شہروں یا گاؤں سے آکر حصہ لیتی ہیں اور ساتھ ہی ڈھول بجا کر ماحول کو تازگی بغشتے ہیں اور اپنی اپنی ٹیموں کا حوصلہ بڑھاتے ہیں. 
غنی پارک لوگوں کے لیے ایک مکمل گزرگاہ ہے . غنی پارک کے سامنے رہنے والے ایک لڑکے کا کہنا ہے کہ اچھی ہوا کی وجہ سے میرے والد صاحب ایک دفعہ گرمی کے باعث اور لائٹ نا آنے کی وجہ سے تختہ لگا کر غنی پارک میں سو رہے تھے کہ اچانک ایک کتا بھونکا ان کی آنکھ کھلی تو انھوں نے کتے کو اپنی طرف آتا دیکھا وہ ایک دم چونک اٹھے اور سامان کی پرواہ کئے بغیر گھر کی طرف
دوڑ لگائی . غنی پارک لوگوں کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے . غنی پارک کبڈی اور مرغے کی لڑائیوں کا اہم مرکز ہے. ویسے تو غنی پارک ایک عام سا میدان ہے لیکن لوگ کسی طور بھی اسے عام نہیں سمجھتے . 

Midhat خواتین میں تعلیم کا رجھان

خواتین میں تعلیم کا رجھان
علم ایک بیش بہادولت ہے جس کا ہر شخص محتاج ہے خواہ وہ مرد ہو یا وعورت دنیا میں صرف وہی قوم ترقی کرسکتی ہے جس کے تمام مردوزن ایور تعلیم سے آراستہ ہوں حقیقت یہ ہے کہ علم کے بغیر دنیا اور دین کا کوئی بھی کام خاطر خواہ طور پر سر انجام نہیں دیا جاسکتا جب تک ہمارے تمام مردوزن تلعیم کے زیورسے آراستہ ہونگے ہم ترقی کے میدن ان میں آگے قدم نہیں بڑھا سکیں گے یہ ہی وجہ ہے کہ خواتین میں تعلیم کا زجھان ہونا ضروری ہے اور ہونا بھی چاہیئے کیونکہ ایک عورت کو آگے چل کر ایک نسل کی تعلیم و تربیت کرنی ہوتی ہے جب تک ایک عورت تعلیم کے زیور سے آراستہ نہ ہوگی تب تک اچھی تربیت نہیں رسکے گی اس لئے خواتین میں تعلیم کا رجھان ہونا ضروری ہے۔
عورت ایک ایسی مخلوق ہے جس پر ہر معاشرے نے انگلی اُٹھائی تو کبھی اسکا مداوہ کرنے کو کسی دانشور قلم اُٹھا یا مگر عورت کے مسائل روز اول ہے آج کل ویسی ہی ہیں کل بھی بیٹی کو یہ کہے کہ رخصت کیا جاتا تھا کہ اب وہ ہی تمہارا گھر ہے وہ ہی تمہارا ٹھکانہ ہے اور آج بھی مگر اب حالات کچھ بہتر ہیں ۔ آج کی عورت ظلم کے خلاف کسی حد تک آواز سہنے کے بجائے اپنے حق کے لئے لڑنا آواز اُٹھا نہ جانتی ہے۔
دور جدید کے تنا ظر میں دیکھا جائے تو تعلیم کی ضرورت اہمیت اور افادیت سے کوئی اانکار نہیں کرسکتا آج دنیا جس رقتاری سے ترقی کی منزلیں طے کر رہی ہے ۔ اس سے اہل علم بخوبی واقف ہیں۔ آج کے اس جدید دور میں لڑکیاں ، لڑکیوں شانہ بشانہ کام کررہی ہیں۔خواہ وہ ڈاکٹر ، انجیئر، پائلیٹ یہاں تک کہ کھیلوں کے میدان میں بھی لڑکوں کے مقابل ہیں۔ لڑکیاں ہر شعبے میں ترقی کررہی یں۔ کوئی ایسا شعبہ نہیں جہاں خوااتین نے اپنے آپ کو نہ منوایا ہو۔ بس خواتین کو مواقع فراہم نہیں کئے جاتے انہیں آگے نہیں بڑھنے دیا جاتا ۔ہمارے معارے میں کئی ایسے شہر ، دیہات ہیں جہاں لڑکیوں کو تعلیم سے آراستہ کرانا ، بُرا سمجھا جاتا ہے تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی اس لئے خواتین میں تعلیم کا رجھان کم پایا جاتا ہے۔
ہمارے ملک میں بہت سی ایسی عورتیں ہیں جنہوں نے تعلیم کے شعبے اور ملک کی ترقی کے لئے کام کئے ہیں ۔ جن میں فاطمہ جناب ، رانہ لیاقت، بیگم بلکیس ایدھی بے نظیر بھٹو اسلامی ملک کی پہلی وزیراعظم رہی انہوں نے تعلیم حاصل کرکے یہ بتایا کہ خواتین کسی سے کم نہیں ہیں بس انہیں تک موقع ملنا چاہیے ۔ان جیسی نامور خاتون ہیں جنہوں نے یہ بتایا کہ عورتوں کا تعلیم حاصل کرنا ضروری ہے۔ 
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے کہ
"علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اورعورت پر فرض ہے"
اس ارشاد کی روشنی میں بہت ضروری ہے کہ مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کو بھی زیور تعلیم سے روشناس کر ایا جائے۔ قدرت کے جو فطری خوبیاں عورت کو عطا کی ہیں ان سے فائدہ اُٹھا نے کے لئے اسے تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ خواتین کو مواقع فراہم کر ے تاکہ خواتین میں خود اعتمادی پیدا ہو۔ اور انہیں آگے بڑھنے کا موقع ملے۔
عورتوں کی تعلیم میں ان کو تعلیم کی طرف رغب کرنا ، ان میں اس چیز کا شوق پیدا کرنا سب سے پہلے اس کے گھر ، خاندان والوں کا فرض ہوتا ہے ۔ کہ اس میں شعور پیدا ہو اور تعلیم کا ذریعے وہ اپنی زندگی میں آگے بڑھنے کیلئے اچھے فیصلے کرسکے اور کسی بھی قسم کی غلطی سے بچ سکیں۔

------------------------------------------------------------------------------------------------------------

Breaking the Boulevard Shopping Mall

Foto is required of shopping mall ?



Danyal Jan
2k15-mc-24

Improver bs part III

Breaking the Boulevard Shopping Mall

The issue Is highlights recently when the month of December is started and the new of breaking the mall is leak by the people and staff of mall that will going to break on 26 December 2018. Which spread like a great fire in forest, and every one being so worried about it because it is the only point which is the symbol of great state of the art and the place of entertainment.

When I go few days before in mall to ask or investigate that what is reason behind this why the S.I.T.E (Site Industrial Trade Estate) will going to break the entire building. Many people told me various reason which was almost fake but the H.R team manager of the Mall told me that the reason is that the Sindh court is ordered that to break the building with in 40 days or to pay the 35 crores to government otherwise it will break by government. Although the Boulevard shopping mall contains the title of First biggest Shopping mall Hyderabad Sindh which have three floor who have filled by multiple shops and outlets expect the ground floor, it contains hundreds of shops and have a great food court on the top floor which have almost all brands of foods including Desi, Italians, western, Indian and many more, along with a great play land for kids and families too in which various fun rides is installed which is great point of entertainment for the people of Hyderabad. 

Arsalan Siddique (H.R team Manager) also told me the entire case that it is basically constructed on great sewerage gutter which contains all the chemically wastage in itself so that now the government wants to do these actions. Along he told that we installed or set our infrastructure and made our architecture in a unique and luxurious style which is very new and update in world even you cannot find this type of construction in big cities which we done here our stories front, floor and wall tiles, sanitations items etc. all are very unique and luxurious that why many of the builders and brokers are now in against of this mall and made different trapes to destroy us.

Another Land inspector of Sindh Industrial Trade Estate told me that this is totally constructed on illegal plot which is the property of Sindh Industrial Trade Estate and the owners of this mall is now guilty and must have to obey follow the orders of court. Land inspector also said that they may be constructed that building by bribing someone at the time of passing the land construction papers but now they are caught by the Sindh court so now it is difficult that they will release without facing any difficulty.

After this all I still not reached on a fixed point because many on peoples saying that it is unpredictable that what will going to happening so let see on 26 December 2018 either the building will break or destroy or the owners will find any mind way to fixed this issue and made good news for the public of hyderabad. 

Boulevard Shopping Mall, Danyal Jan, Hyderabad 

------------------------------------------------------------------------------------------------- 

Feature
Danyal Jan
2k15/mc/24
Bs Part III

Jinnah International Airport Karachi


Karachi is the biggest metropolitan city of Pakistan, this city known also a trade city of Pakistan because here you found many businesses of imports as well as exports too. One of the great reason of is can be consider as that it connects with sea ports and along with the great Interntional Airport which is largest airport of Pakistan from where largest numbers of passengers travels for domestic and international flight.
All the day many passengers come to travel their desire destination from their chosen airline along that passengers their relative or family members also come to see off them and giving blessings or good wishes because of this the airport is almost always be filled by them and every a single moment you can find a huge quantity of public along with their passengers by holding the shopping bags in which many gifts and food items are presented for the passenger who travel to far distance for a long period of time and their family or relative Is providing the traditional and national things and stuff as memorial of their hometown. So many flowers and roses you will found on the floor of airport and the cleaner is continuously clean the floor with the passage of time but by the great number of passengers you found the floor very rosery and with great fragrance or flowers.
The area where airport is constructed is known as Faisal cantonment, and because of cantonment the road which leads to airport are very wide and clean and great greenery and trees are presented in these roads which puts a great freshness in the air and by breathing in this area people feel so light and a taste of heavens life. when the traveler was arrived at airport he will be found the crowd of people outside the airport that crowds are those peoples who came to pick their passengers, staff members who coming out due the end of their shift timing or peoples who came to drop our passenger or staff of airport.
When you enter in airport you can able to see the great beauty of the garden of airport which full of the beautiful flowers, Grass and trees etc. many Childrens and women who are old mostly were sitting over there because they are not able to go inside for wait their passenger in this great beauty of airport. A fast food stall is also present here to remove the huger of the guests. Along whit there are so many other cafeterias, ATM’s, T.V LED’s, Water dispensers, washrooms and etc. To Facilitated the people who came to receive their passengers.
The building is constructed on 7Th stories where different offices and restaurants are made to full fill the desire of costumers. Expect this the ground floor is for general public for example the guests of the passengers this floor in made by great peach color tiles and contrast lights, fixed sofa and chairs is fitted over there to make comfort for the people who are presented over there.There are also great lifts and elevator are installed to make easiness for the peoples and the continuousrhythm of sound of lifts and elevators showing the great example of unique music whit out any musical instrument.

The Jinnah Interntional Airport covers 7,055,873 passengers annually and annually flight is approximately 58004 this great number of flights shows that how the airport is busy 24/7 by facilitating our passenger with great aviation standards.
It Is huge and luxury constructedbuilding where so many arts is present which impress the eye of person who is watching that’s why the Childrens, girls and all peoples come with great excitement to visit the Airport and enjoy the journey with the their families to see the art in a very secure and unique manner that why it is the attention seeker of any one and many of the people desire to visit airport as much as they can. 
----------------------------------- 
Danyal

2k15-mc-24
Profile
Improver

“Danish” The Man of Darkness


An old phrase which is very common in Urdu language which meaning is if blessings comes before the time it become the worst ever. The true example of this phrase is existing if o it is only the “Danish” which Is just 23-year-old guy and belongs to a great rich family.
Danish has one sister who is elder from his, one elder brother and father no mother. His sister is well settled in England and his brother his living the luxurious life in Canada and they both send the great amount as a pocket money to his monthly and the father of Danish is the chairman of the society where they live and also a great landlord who also provide him a great luxury from his first day of his life in the world when he was born.
You cannotfind Danish in light of sun or in Daylight because this guy Is come out from his house in night only although he is not a batman or any other super hero who come out in night to help other who are in danger or in problem, Danish come out in night with a great covered Dark Brown dotted Shawl either summer or winter season both. By this shawl he covered his whole skinny body from head to toe and its very difficult to identify his front and back in the night or darkness by his unique style of covering himself.
All the night he rooming on the road not only in society out of the society too. And spend his all money in different type drugs and things and don’t speak anything any word from any one there no any slippers in his feet's or any kind of shoe, No mobile phone, watch, bracelets, no any fragrance or perfume in his waring or any other stuff which part of a rich man life. His allappearance which is almost 5.6 height is covered by that Dark Brown Shawl. He always ties his hand on his back either he is walking or sitting in any corner no one can know what is actual logic behind this but it will be considered that in his nature.
He spent all his nights in his addictions and days in his rest or sleeping in his room but the only thing which is good in himself and can't find in other well educated and great mans that he always come his home and never left his father alone in the home like other and don't make any trouble in house so that his father face any kind of problem he even being silent or reserved in his own house don't demand anything expect the money.
Very occasionally he comes out in days but along with his shawl which he tightly covered on his whole body and walk on side of road by putting his face downward. And if heard the sound of azan while on walking he stand where he was even he were on main road or in busy traffic and don’t move from here although Is some try to move him forcibly after the azan complete start walking as previous, so many time he was beaten by peoples badly but he never change his self by doing this although now the people are very use to by his this attitude. He is not so much educated but no one can able to judge his personality by his actions which he doing without any filters of attention seeking of other. But we can say that he always respects his God and Father most so we cannot say any bad wishes or word on it. It is lesson for the parents that never do extra love or spoil our kinds so that they were make our mind sets on it and destroy our life. We pray that God show the path of blessing to Danish and made his remaining life better which is good for his and his father too. 
--------------------------------------------------------------------------------------------------------- 
Danyal Jan
2k15-mc-24
Article (improver)

Cultural Diversity in Pakistan


Pakistan is the country which presented in Asia, the official name of this country is Islamic republic of Pakistan,it is the sixth-most populous country with a population exceeding 212,742,631 people. In area, it is the 33rd-largest country. consist of four provinces (Balochistan, Khyber Pakhtunkhwa, Punjab, and Sindh), two autonomous territories (Azad Jammu and Kashmir, Gilgit-Baltistan) and one federal territory (Islamabad Capital Territory). Along with these different provinces and administration it contains different culture and their norms.
When there was no media and communication technology in the hands of people of our society the people was very narrow and stereo in their areas and culture and their mind set was fixed in their cultural aspects and ethics. Punjab has its own style of living, celebrating etc. Balochistanits own and so on. But when Techology comes in the field of communication the people were move forward to other culture and living styles with the passage of time and innovations.
Now a days the society Is clearly diverts in its culture and all aspect people who living now a days are not only statue of different culture of Pakistan only but also having different colors of various culture of other continents in world in our self. Just because of great development or creation in Media or communication technology.
The wearing white dresses in the funeral event is not the culture of Pakistan even not any imaginations of this or having no any concept according to this in us now a day'speople's minds are set on it that to wear white in funeral is the part of life that shows the funeral only. On the other hand in our society is busy in wearing white in occasion on wedding which is also not our culture its totally the western but people are putting it in our culture slowly and gradually.
Making fun with the items of eat or food in occasions of family festivals or events is also culture of abroad and on the other hand consider bad thing in our culture but the coming generation and youngster are involves to doing this in their life'swithout any regret.Because in our society there are many who have no food for only a single time in a day and people are wasting to jut making fun in event it Is totally out of ethic and culture but no one can able to think and try to stop this.
The culture of Pakistan which is based on Islamic perspective is a neat and clean for every one and symbol of peace for everyone but with the passage of time we are forgetting it and the result of its people facing the bundles problems in their life, like rape of girl even a six-year-oldstudent school going girl, affairs of opposite sex in their schools standard, making the milk with chemical for children's and selling as a original cow milk, making fully out ofnutrition'svegetables, even not only this the medicines which Is purely made to safe someonedisease and life are selling to extend the expiry dates or fake formulas in a cheap cost without thinking that it's how much harmful for the patient just to make a profit in short term, divorce of young couples by affairs after marriages and many other. These are some of the problems which are presented in our society and if you go in past just only 20 to 30 years you are unable to find even the name of these problems which we are facing now a days and through this we loss our purity and value in the world which was made by our great ancestors.
To get rid of these problems we have to shift our self towards the culture of purity and blessings which create peace only no any violence or problems which know as Islam only. Because only it has a power to fight against these all problems and pure the self of its believers and on the other hand the government should check and balance the making of fake thing and selling it to nation of its state, Make strong the department of law Enforcment's and policy makers. And put eye the contains which is transmitting on any media and if it presenting bad influence cancel the transition although it is very difficult because now a day's media had a great access and power but by applying gatekeeper and putting some policies it can be possible easily. So that we can see our country again as a real “Pakistan” which really “Pak” from all badness's.

-------------------------------------------------------------------

Monday, 13 February 2017

Groups and topics for Presentation


( Note: faheem (M.A previous) Sabir, Preetum and Hussain should go back to their group as they were in the blog group)
20-Feb-2017
Group 1
Topic: What is online journalism
Fareena (21) Sana (55) Hoor khan (27)
Group 2
Topic: writing for website- content is king.
Rebecca usrani (80) Faryal abbasi (119) Fatima Mustafa (27)
Group 3 (non blog group)
Topic: content of website in format
Ali Aizaz (126) Naveed Ahmed (160) Kamran odhano (174)
Group 4
Topic: content of website in subject
Jawad Ahmed (39) Waris Bin Azam (102) Ahsan Pervaiz (03)
21-Feb-2017
Group 5
Topic: creating blog, how to write blog, blog writing practice
Najeebullah chandio (116) Khalid shaikh (154) Ayoob rajpar (130)
Group 6
Topic: what is social networking?
Mahira Majid Ali (155) Saira Nasir (84) Misbah–ur-Ruda (52)
Group 7
Topic: Data journalism
Sadaquat Hussain Kazi (118) Sheeraz Solangi (166) Sadam Solangi (162)
Group 8
Topic: Citizen journalism
Akash Hamerani (10) Waseem Umar (68) Jamshaid (31)
22-Feb-2017
Group 9
Topic: Ethical and legal aspects of online
Sadam Hussain Lashari (52) Abdul Razzaque (03) Rasheed Ahmed Nizamari (49)
Group 10
Topic: Gatekeeping in online journalism
Muhammad Umair (42) Ahsan Shakeel (07) Shoaib Baloch (41)
Group 11
Topic: Credibility and ethical issues in online journalism
Muhammad Uzair (158) Muhammad Rafay Khan (140) Waqas Arain (66)
Group 12
Topic: Online journalism in Pakistan
Mushtaque (142) Muhammad Amin (115) Ali Asghar (127)
27-Feb-2017
Group 13
Topic: what is online journalism
Hoor-e-laiba (172) Fatima Javed (26) Maryam (50)
Group 14
Topic: writing for website content is king
Rehma (50) Mehnaz (36) Dur-e-Shehwar (19)
Group 15
Topic: contents of website in format
Imtiaz Ahmed Abbasi (28) Ali Raza Rajpar (12) Aijaz Ali Bhatti (08)
Group 16
Topic: contents of website in subject
Simra (93) Mizna (156) Sabhiya (82)
28-Feb-2017
Group 17
Topic: what is social networking?
Rajesh Kumar (78) Mumtaz Jamali (159) Imam Ali Bhalai (114) Zulfiqar Khoso (108)
Group 18
Topic: Creating blog, how to write a blog, practice
Tariq Ali (63) Abdul Ghafar (02) Abdul Sattar (04)
Group 19
Topic: Data journalism
Rameez Lakho (79) Sajjad Ali Lashari (163) Amin Emmanuel
Group 20
Topic : Citizens journalism
Fariya Masroor (23) Mashal Jamali (35)
1-March-2017
Group 21
Topic: Terminology in online journalism
M.Saud Sheikh (63) M.Bilal Siddiqui, Raheel Siddiqui
Group 22
Topic: Socio economic aspects of online
Maiza (33) Sehar (53) Narmeen
Group 23 (non blog group)
Topic: Gatekeeping in online journalism
Aftab Ahmed (05) Ghulam Mahdi Shah (25) Aijaz Gul (09)
Group 24
Topic: Credibility and ethical issues in online journalism
Muhammad Zubair (67) Hammad Zubair Khan (30) Hamza Sheikh (31)
6-MARCH -2017
Group 25
Topic: Credibility and ethical issues in online journalism
Minhaj –ul-Islam (150) Shahjahan Ansari (47) Bilal Masood (132)
Group 26
Topic: online journalism in Pakistan
Anam (07) Farhana Naghar (24) Shariyar Rasheed (147)
Group 27
Topic: Terminology of online journalism
Pawan (117) Ravi Shankar (80) Bharat Kumar (16)
Group 28
Topic: Gate keeping in online journalism (no blog)
Aqsa Qureshi (13) Tazmeen Rehman (64) Maria Shaikh (34)
7-MARCH -2017
Group 29 (non blog group)
Topic: what is online journalism?
Jamshed (135) Mansoor (48)
Group 30
Topic: online journalism in Pakistan
Shariq Mehmood (146) Asad-ur- Rehman (09) Baber Ali (111)